پاکستان میں 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کرتیں گیلپ سروے

ایک ڈاکٹر پر حکومت 40 لاکھ روپے کی سبسڈی دیتی ہے، بہت سے خاندان اچھے رشتے کیلیے بیٹی کو ڈاکٹر بناتے ہیں، رپورٹ


Staff Reporter September 11, 2023
بہت سے خاندان بیٹیوں کے اچھے رشتے کیلیے بھی انہیں ڈاکٹر بناتے ہیں، کچھ خواتین کو روزگار نہیں مل پاتا، رپورٹ (فوٹو : فائل)

پاکستان میں طبی پروفیشنلز کی کمی کے باوجود خواتین ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد ملازمت نہیں کرتی حالانکہ حکومت پبلک سیکٹر کی جامعات میں میڈیکل کی تعلیم پر اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کررہی ہے۔

لیبر فورس 2020-21 کی اپنی تحقیق کی بنیاد پر گیلپ پاکستان اور پرائیڈ نے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے لیبر مارکیٹ اور خاص طور پر خواتین میڈیکل گریجویٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور رپورٹ مرتب کی۔ سروے میں پاکستان بھر سے تقریباً 99900 گھرانوں کا ڈیٹا جمع کیا تھا اور پہلی مرتبہ ضلعی سطح کے نتائج بھی فراہم کیے گے۔

سروے کے نتائج کے مطابق ایک طرف پاکستان میں قابل ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے جبکہ دوسری طرف 36 ہزار سے زائد خواتین ڈاکٹرز یا تو بے روزگار ہیں یا وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کررہی ہیں۔

گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں تربیت یافتہ طبی ڈاکٹرز کی کمی ہے اور قابل خواتین ڈاکٹرز کا کام نہ کرنا ایک اہم مسئلہ ہے، خدمات انجام نہ دینے والے ڈاکٹرز پر ہونے والے اخراجات سے ٹیکس دہندگان کا قیمتی پیسہ بھی ضائع ہورہا ہے جب کہ صحت کے نقصانات علیحدہ ہیں۔

سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت پاکستان میں 104974 خواتین میڈیکل گریجویٹس موجود ہیں جن میں سے 68209 (65فیصد) مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں طبی خدمات فراہم کررہی ہیں جبکہ 15619(14.9فیصد) خواتین ڈاکٹرز کام نہیں کررہی ہیں اور مجموعی تعداد کا 20.1 فیصد 21146 خواتین ڈاکٹرز مکمل طورپر لیبر فورس سے باہر ہیں۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق 1947ء میں اپنے قیام کے بعد سے پاکستان نے تقریباً 2لاکھ ڈاکٹرز پیدا کیے ہیں جن میں سے نصف خواتین ہیں، بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق 1970ء سے اب تک تقریبا ً30 ہزار ڈاکٹرز پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور اوسطاً تقریباً ہر سال ایک ہزار ڈاکٹرز بیرون ملک جارہے ہیں، ان میں سے اکثر ڈاکٹرز نے پبلک یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی جہاں حکومت تعلیم پر سبسڈی کی مد میں اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک اوسط پرائیویٹ یونیورسٹی میں میڈیکل کے طلبا ء سے 50 لاکھ روپے سے زائد فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ حکومت 10 لاکھ روپے سے بھی کم میں وہی تعلیم فراہم کرتی ہے، اس طرح ایک ڈاکٹر بنانے کے لیے حکومت کو کم از کم 40لاکھ روپے سے زائد کی سبسڈی دینا پڑرہی ہے، بھاری سبسڈی کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون ڈاکٹر کام نہیں کررہی، موجودہ مالیت کے مطابق تقریباً 50 ہزار خواتین ڈاکٹرز پر ہونے والی کم از کم 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے۔

ڈائریکٹر پالیسی ریسرچ پرائیڈ ڈاکٹر شاہد نعیم کے مطابق ہر 5 میں سے ایک میڈیکل گریجویٹ لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کرتا ہے اور لبیر فورس سے باہر خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے زیادہ ترشادی شدہ ہیں، حکومت قیمتی زرِمبادلہ بچانے کیلئے پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالجز میں سیٹیں مختص کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے، میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین میڈیکل گریجویٹس یا ڈاکٹرز کا لیبر فورس سے باہر رہنا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

سروے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے مجموعی گریجویٹس میں سے 72 فیصد شہری اور 28 فیصد ڈاکٹرز دیہی علاقوں میں مقیم ہی، دیہی علاقوں میں نصف سے زائد 52 فیصد میڈیکل گریجویٹس ملازم ہیں اور 31 فیصد بے روزگار ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں 20 فیصد کی قومی اوسط سے کم 17 فیصد میڈیکل گریجویٹس لیبر فورس سے باہر رہنے کوترجیح دیتے ہیں۔

اسی طرح شہری مراکز کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 70 فیصد میڈیکل گریجویٹس ملازم ہیں جبکہ 9 فیصد سے بھی کم بے روزگار ہیں جبکہ شہری علاقوں میں لیبر فورس سے باہررہنے کا انتخاب کرنے والے میڈیکل گریجویٹس کا تناسب 21 فیصد سے زیادہ ہے۔

شہری اور دیہی علاقوں کا موازنہ کیا جائے تو خواتین میڈیکل گریجویٹس کے لیے شہری علاقوں میں 78 فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف 22 فیصد کیلئے روزگار کے مواقع ہیں۔ اس کے برعکس 57 فیصد کے ساتھ دیہی علاقوں میں بے روزگاری کا تناسب زیادہ ہے جبکہ شہروں میں بے روزگاری کا تناسب 43 فیصد ہے۔

لیبرفورس سے باہر 21146 خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے شہری علاقوں کا تناسب 76.6 فیصد اور دیہی علاقوں کا 23.4 فیصد ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ لیبرفورس سے باہر 21146 خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے 76 فیصد شادی شدہ ہیں جبکہ عمر کے لحاظ سے 25سے 34سال کی خواتین میڈیکل گریجویٹس کا تناسب سے زیادہ 54فیصد ہے۔

سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں شادی کیلئے مناسب رشتہ تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

سروے میں ان خواتین میڈیکل گریجویٹس کو شامل کیا گیا تھا جنہوں نے بی ڈی ایس، ایم بی بی ایس، ایم فِل، ایم ایس یا ایم ایس سی یا طب کے کسی بھی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں