پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) نے ملک کے بڑے شہروں میں حفاظتی انتظامات مزید سخت بنانے کے لیے فوج کو شہری حفاظتی دستوں کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز جمعے کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں پیش کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق تجویز کی حتمی منظوری وزیر اعظم نواز شریف دیں گے۔ یہ سیکیورٹی پلان ملک کے تمام بڑے شہروں کے لیے نافذالعمل ہو گا اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔
بلاشبہ نیکٹا کا مجوزہ فارمولا جسے بہرحال داخلی امن اور استحکام میں نتیجہ خیزی ثابت کرنا ہو گی، اپنے بنیادی ہدف یعنی دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور بلا امتیاز حکمت عملی سے حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے بریک تھرو ثابت ہو سکتا ہے جب کہ قومی سلامتی کے معاملات میں ملکی خود مختاری، جمہوری نظام کی بقا اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ضمن میں انسداد دہشت گردی کے اس قومی ادارے پر وقت نے ایک تاریخی ذمے داری ڈال دی ہے کہ وہ داخلی انتشار و لاقانونیت کی ذمے دار تمام سر کش قوتوں سے حساب برابر کر لے۔ اب قانونی موشگافیوں، بے نتیجہ منصوبوں اور خالی خولی اعلانات سے بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔
ملک اپنے سیاسی اضطراب، معاشی بے یقینی اور تزویراتی استحکام کے خدشات کے حوالے سے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ لہٰذا فوج کو شہری سکیورٹی دستوں کا حصہ بنانے کا فیصلہ تو دیرینہ قرض کے طور پر حکمرانوں پر اس وقت سے واجب تھا جب سے دہشت گردوں کے اپر ہینڈ کے باعث شہر اور شہری بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے عذاب سے دوچار رہے۔ قانون اور آئینی اقدامات کا کوئی فقدان نہ تھا، قانون کی حکمرانی کے وعدے و دعوے تقریباً ساری جمہوری حکومتوں نے کیے مگر کہاں ہے وہ قانون کی حکمرانی یا اس کی ادنیٰ سی خیالی جنت! یہی سیاسی و سماجی خلاء قانون کی بے بسی کا مذاق بن گیا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی اندھا دھند ہر شعبہ ہائے حیات میں داخل ہوتی ہے اور قتل و غارت کے بازار سج جاتے ہیں، جہاں سکھوں کے مقدس مقامات پر حملوں اور ان کے روحانی پیشوا بابا گرو نانک کی توہین پر مشتعل سکھ برادری پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دیتی ہے۔
دیکھا جائے تو صورتحال خاصی پیچیدہ اور سنگین تھی کیونکہ تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہرے کے دوران مشتعل سو سے زائد سکھ سیکیورٹی حصار توڑتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوئے، پارلیمنٹ ہاؤس کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر لیا، اسی روز اسلام آباد کی سپر مارکیٹ میں دھماکا ہوا، زخمیوں کو فوری طور پر پولی کلینک اسپتال منتقل کر دیا گیا، پولیس کے مطابق دھماکا خودکش تھا اور صرف بمبار ہلاک ہوا۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن جاری ہے، دہشت گردی کے اندوہ ناک واقعات کا تذکرہ لاحاصل ہے ضرورت آئندہ وارداتوں کے ممکنہ سدباب کی ہے جو اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں ہو سکتے ہیں۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارہ جاتی اضمحلال کا یہ شاخسانہ ہے کہ ملک کو بیرونی جارحیت کے مقابلہ یا خدشہ سے زیادہ سنگین خطرہ داخلی عدم استحکام، روزمرہ کی ریلیوں، تحریکوں، احتجاج اور اشتعال انگیز بیانات سے پیدا شدہ صورتحال سے ہے۔ تاہم یہ خوش آئند امر ہے کہ دہشت گردی کے پیش نظر بنائے گئے وزارت داخلہ کے حفاظتی منصوبے کے مطابق شہر کے داخلی راستوں، اہم مقامات اور چوراہوں پر فوجی اہلکاروں، رینجرز اور پولیس پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تعینات کی جائیں گی جنھیں مشکوک گاڑیوں کے علاوہ گھروں کی تلاشی کا اختیار بھی ہو گا۔ یہ ٹیمیں ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات موقع پر ہی درج کرنے کی مجاز ہوں گی۔
ادھر غیر قانونی سمز کے اجرا کو روکنے کے لیے نادرا اور ٹیلی کام آپریٹرز کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی فرد بائیومیٹرک تصدیقی عمل سے گزرے بغیر سم حاصل نہیں کر سکے گا۔ چیئرمین نادرا امتیاز تاجور کی جانب سے بائیومیٹرک کے ذریعے سمز کے اجرا کے معاہدے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بریفنگ دی گئی کہ معاہدے کے بعد جعلی شناختی کارڈ پر سم کا اجرا ممکن نہیں ہو گا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ بائیو میٹرک کے ذریعے موبائل فون سمز کی تصدیق سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہتر تکنیکی معاونت مہیا ہو سکے گی جب کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال بھی بہتر ہوگی۔
چیئرمین نادرا نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ نادرا ملک کے 96 فیصد آبادی کے بائیو میٹرک کی واحد محافظ ہونے کے ناتے سیلولر ڈیوائسز کی دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کے حوالے سے وزارت داخلہ کے سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے بائیومیٹرک حل پیش کر رہی ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ہم ان سے مذاکرات کریں گے جو اس کے لیے تیار ہیں اور آپریشن ان کے خلاف شروع کیا جا رہا ہے جو مذاکرات کی میز پر آنے کیلیے آمادہ نہیں ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے ردعمل کے امکان کے پیش نظر اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی سے متعلق انھوں نے کہا حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نا صرف اسلام آباد بلکہ ملک بھر میں شہریوں کا تحفظ کرے اسطرح کے انتظامات حکومت کے احتیاطی اقدامات کا حصہ ہیں۔ اسی طرح کا معاہدہ پاکستان اور نائیجیریا کے مابین ہوا ہے جس میں دوطرفہ بنیاد پر اینٹی ٹیررازم، شورش، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لییپولیس افسران کو اعلیٰ سطح کی مشترکہ تربیت دی جائے گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے ہمسایہ دوست ملک چین کے شہر ارومچی کی مارکیٹ میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے معصوم شہریوں کی ہلاکت پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے دہشتگردوں کو انسانیت کا سفاک دشمن قرار دیا ہے، اپنے ایک بیان میں انھوں نے دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے پاک چین مشترکہ حکمت عملی پر زور دیا ہے، انھوں نے چینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ چین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کائونٹر ٹیررازم کا تعلق صرف گنوں، جدید ساز و سامان اور سریح الحرکتی فورسز کی شہروں میں ماردھاڑ تک محدود نہیں ہے بلکہ قانون شکنوں کی نفسیات جاننے سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے جو مستقل ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ مشہور عسکری ماہر مائیکل شیور کا کہنا ہے کہ ''امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی خاص طور پر کائونٹر ٹیررازم کمیونٹی کی بڑی ''دانشورانہ غلطی'' یہ ہے کہ اس نے فرض کر لیا کہ اگر کسی نے دوبارہ امریکا پر حملہ نہیں کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا وہ کر نہیں سکتا یا امریکا نے اسے شکست دے دی ہے۔'' اسی میں ہمارے حکمرانوں، قانون نافذ کرنے والوں، پاک فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے لیے ایک سبق موجود ہے۔ پاکستان کو در پیش سارے بحرانون سے زیادہ اہم مشن دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ ریاستی رٹ اور امن قائم کرنے کے لیے اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔