بہاولپور سے پہلی بار کراچی آیا نوجوان پولیس تشدد سے جاں بحق، ورثا کا لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج

نوجوان اور اسکے دوستوں کو پولیس نے مشکوک سمجھ کر حراست میں لیا تھا، 7 اہلکار معطل، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کی تصدیق


اسٹاف رپورٹر October 24, 2025

کراچی:

ایس آئی یو پولیس کے تشدد سے بہاولپور سے کراچی آیا 15 سالہ نوجوان عرفان جاں بحق ہوگیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کی تصدیق ہوگئی، ورثا نے لاش سڑک پر رکھ کر دھرنا دے دیا، افسران نے سات پولیس اہلکاروں کو معطل کرکے تحقیقات شروع کردیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق عرفان کو اس کے دیگر تین دوستوں کے ہمراہ بدھ کی صبح عائشہ منزل سے حراست میں لیا گیا تھا، جمعرات کی شام کو عرفان کے چچا کو فون کرکے ایس آئی یو کے دفتر بلاکر عرفان کی موت کے بارے میں بتایا گیا۔

نوجوان کی ہلاکت کے خلاف ورثا نے سی آئی اے سینٹر صدر کے باہر احتجاج کیا اور پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ورثا نے الزام عائد کیا کہ عرفان ایس آئی یو پولیس کے تشدد سے ہلاک ہوا۔

ورثا نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ عرفان کا آبائی تعلق بہاولپور سے ہے اور وہ پہلی مرتبہ کراچی گھومنے پھرنے آیا تھا، عائشہ منزل پر ناشتہ کرنے کے بعد عرفان دوستوں کے ساتھ ویڈیو بنارہا تھا، پولیس نے مشکوک سمجھ کر اسے دوستوں سمیت حراست میں لیا اور ان کے موبائل فونز بند کردیے۔

ورثا نے بتایا کہ عرفان کے والدین بہاولپور میں ہیں، اطلاع ملتے ہی اس کی والدہ کی طبیعت بھی خراب ہوگئی، اگر کوئی جرم بھی تھا تو اہل خانہ کو آگاہ کیا جاتا، وزیر اعلیٰ اور آئی جی سندھ سے اپیل ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔

کراچی پولیس چیف کا انکوائری کا حکم

کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے کہا کہ واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے، ضرورت محسوس ہوئی تو اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرینگے، لاش کا مجسٹریٹ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کرایا جائے گا جس کے بعد وجہ موت کا علم ہوسکے گا۔

ایس ایچ او چوہدری زاہد نے بتایا کہ مذکورہ واقعہ بدھ کو پیش آیا تھا، جناح سے پولیس کو انٹری موصول ہوئی تھی کہ کوئی نامعلوم شخص لاش چھوڑ کر گیا ہے، اس اطلاع پر ڈیوٹی افسر اسپتال پہنچا تووہاں پر ایس آئی یو صدر کی پولیس بھی موقع پر موجود تھی اور مجسٹریٹ کو بھی بلوایا گیا تھا تاہم تھانے میں مقتول کے اہلخانہ کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور اس حوالے سے مزید قانونی کارروائی ایس آئی یو پولیس ہی کر رہی ہے۔

ایس ایس پی ایس آئی یو امجد شیخ کے مطابق واقعے کی انکوائری چل رہی ہے جبکہ اس واقعے میں ملوث ایک پولیس افسر سمیت 7 اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جسم پر تشدد کی تصدیق

 

دریں اثنا اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (سی آئی اے) پولیس کی حراست میں  مبینہ تشدد سے جاں بحق 15 سالہ نوجوان عرفان کا پوسٹ مارٹم مکمل کرنے کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی گئی۔ پوسٹ مارٹم کے دوران نوجوان کے جسم پر متعدد چوٹوں کے نشانات پائے گئے۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ طارق کے مطابق پوسٹ مارٹم کے دوران نمونے کیمیائی تجزیے کے لیے محفوظ کرلیے گئے نوجوان کی حتمی وجہ موت کیمیائی رپورٹس آنے تک محفوظ رکھی گئی ہے۔

ورثا کا سڑک پر میت رکھ کر احتجاج

نوجوان کی ہلاکت کے خلاف ورثا نے سہراب گوٹھ ایدھی سرد خانے کے سامنے سڑک پر مقتول کی میت رکھ کر احتجاج کیا۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرکے اس میں ملوث پولیس اہل کاروں کو فوری طور پر گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا جائے۔

احتجاج کی وجہ سے سہراب گوٹھ سے شفیق موڑ جانے والی سڑک پر ٹریفک معطل ہوگیا جبکہ احتجاج کی اطلاع ملتے ہی ایس ایچ او سمن آباد پولیس کی نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے، ٹریفک کا عملہ بھی موقع پر پہنچ گیا اور گاڑیوں کو متبادل راستوں کی جانب موڑ دیا۔

عرفان کی لاش ورثا نے جمعہ کی دوپہر پوسٹ مارٹم کے بعد جناح اسپتال سے  سہراب گوٹھ ایدھی سرد خانے منتقل کی۔ اس موقع پر کئی رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے، مقتول کے ورثا معصوم عرفان کی لاش دیکھ کر بلک بلک کر روتے ہوئے دکھائی دیئے۔

مقتول نوجوان عرفان کے محلے دار اظہر ضیا نے بتایا کہ پولیس گردی کے نتیجے میں ایک جیتا جاگتا بچہ موت کی آغوش میں چلا گیا اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی پولیس افسر یا حکومتی شخصیت کی جانب سے اس کا نوٹس تک نہیں لیا گیا سوائے 7 پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کے جبکہ انھیں تو فوری طور پر گرفتار کر کے مقدمہ درج کرنا چاہیے تھا۔

انھوں نے بتایا کہ مقتول عرفان بہاولپور احمد پور شرقیہ میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے بفرزون کے بی آر سوسائٹی میں اپنے چچا کے گھر آیا ہوا تھا اور اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ بدھ کی صبح دوستوں کے ہمراہ عائشہ منزل ناشتہ کرنے چلا گیا اور وہاں سیلفی اور تصاویر بناتے ہوئے ایس آئی یو پولیس نے اسے دیگر دوستوں ناصر، سلمان اور عمران کے ہمراہ حراست میں لے لیا اور ان کے موبائل فونز چھین کر بند کر دیئے اور زیر حراست لڑکوں بلاجواز تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ عرفان ان کا بہیمانہ تشدد برداشت نہ کرسکا اور زندگی کی بازی ہار گیا۔

اظہر ضیا نے بتایا کہ مقتول عرفان گھر کا بڑا تھا اور احمد پور شرقیہ میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے کراچی آیا تھا کہ یہاں کوئی روزگار حاصل کریگا جبکہ اس کے دیگر 3 چھوٹے بہن بھائی ہیں جبکہ والد ضعیف ہیں۔

انھوں ںے بتایا کہ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر اس معصوم لڑکے کا کیا گناہ تھا؟ اگر وہ کوئی کرمنل تھا تو قانون کے مطابق کارروائی کرتے، ورثا کو بتایا جاتا کہ زیر حراست اس جرم میں ملوث ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں جنگل کا قانون رائج ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں کسی کو کب اور کون کہاں سے اٹھا کر لے جائے کچھ بھروسہ نہیں۔

مقتول کے ورثا نے وزیر اعلیٰ سندھ ، وزیر داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب کے سیلاب زدہ علاقے سے آنے والے نوجوان عرفان سمیت دیگر دوستوں کی غیر قانونی حراست اور پولیس کے مبینہ تشدد سے عرفان کے جاں بحق ہونے کی غیر جانب دار تحقیقات کرائیں اور ذمہ داروں کا تعین کر کے انھیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔

مقتول عرفان کی ہلاکت پر سہراب گوٹھ کے قریب کیے جانے والا احتجاج پولیس نے مظاہرین کو بات چیت کے بعد ختم کرا دیا جس کے بعد ٹریفک کی روانی بحال ہوگئی۔

نوجوان بدھ کو ہی دم توڑ گیا تھا، پوسٹ مارٹم کے وقت لاش 36 گھنٹے پرانی تھی

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نوجوان عرفان بدھ کو ہی پولیس کی حراست میں دم توڑ گیا تھا، پوسٹ مارٹم کے وقت عرفان کی لاش 36 گھنٹے سے زائد پرانی تھی، نوجوان عرفان کو بدھ کی صبح حراست میں لیا گیا جبکہ شام 7 بجے اس کی لاش جناح اسپتال پہنچائی گئی۔

ایم ایل او نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار جس کے باعث اہلکار نوجوان لاش واپس لے گئے، جمعرات کو پولیس اہلکاروں نے لاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرانے کی کوشش کی تھی جس کے بعد گزشتہ جمعہ کی صبح مجسٹریٹ کی نگرانی میں میڈیکل بورڈ نے نوجوان عرفان کی لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل کیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عرفان کے جسم پر تشدد کے 7 بڑے جبکہ چہرے اور کمر پر بھی تشدد کے نشانات پائے گئے، عرفان کے جسم کے نازک حصے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عرفان کی وجہ موت کا تعین کیمیکل ایگزامن کی رپورٹ آنے کے بعد ہوسکے گا۔

مقبول خبریں