امریکی فوج نے بحرالکاہل پر منشیات اسمگلر کرنے کے لیے سفر کرنے والی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی فوج نے بتایا کہ بحر الکاہل کے پانیوں میں 3 کشتیوں کو نشانہ بنایا جس میں منشیات تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پہلی کشتی میں تین، دوسری میں دو اور تیسری میں بھی تین افراد ہلاک ہوگئے۔ مجموعی طور پر 8 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکی حکام نے بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہلاک ہونے والے افراد منشیات کی اسمگلنگ میں منسلک تھے۔
امریکی فضائیہ کے طیاروں نے ان حملوں کے لیے ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو سے اُڑان بھری تھی جو کہ وینزویلا سے محض 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ان حملوں کے ساتھ ہی ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو نے اعلان کیا ہے کہ اس نے آئندہ چند ہفتوں کے لیے امریکی فوجی طیاروں کو اپنے ہوائی اڈوں کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔
حکام کے مطابق یہ اجازت لاجسٹک سرگرمیوں، رسد کی فراہمی اور فوجی اہلکاروں کی آمدورفت کے لیے دی گئی ہے۔
وزیراعظم کملا پرساد-بسیسر نے سخت لہجے میں کہا کہ منشیات فروشوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھنا زیادہ بہتر ہے بنسبت اس کے کہ وہ لوگ ہمارے شہریوں کو نقصان پہنچائیں۔
اس کے جواب میں وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو کو گیس کی فراہمی بند کر دے گا۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی صدر کیریبین خطے اور لاطینی امریکا میں وینزویلا کے خلاف اپنی افواج کی موجودگی میں نمایاں اضافہ کر رہے ہیں۔
ستمبر سے اب تک بحرالکاہل اور کیریبین سمندر میں وینزویلا کے قریب امریکی حملوں میں کم از کم 90 افراد مارے جا چکے ہیں۔
عالمی قوانین کے ماہرین امریکی فوج کی ان کارروائیوں کو ماورائے عدالت قتل اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی سے قرار دے رہے ہیں۔
پینٹاگون کے مطابق خطے میں منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے امریکی بحری جہاز، آبدوز، ڈرونز اور لڑاکا طیارے تعینات کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب وینزویلا نے ان اقدامات کو اپنے قدرتی وسائل پر قبضے کی کوشش قرار دیا۔
وینزویلا کا کہنا ہے کہ امریکی حملوں اور فوجی دباؤ کا مقصد اس کے بے پناہ تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی افواج نے وینزویلا کے ساحل کے قریب ایک آئل ٹینکر بھی ضبط کیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا خیال ہے ہم تیل اپنے پاس رکھیں گے۔
امریکی قانون سازوں نے وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ سے ان حملوں میں ان کے کردار پر سوالات اٹھائے، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا انہوں نے ستمبر میں ایک ایسی کشتی پر دوبارہ حملے کا حکم دیا تھا جس میں ابتدائی حملے کے بعد دو افراد ملبے سے چمٹے ہوئے زندہ بچے تھے۔