عمران خان اور سیاستدان

بتایا جاتا ہےکہ جن آبادیوں پرایٹم بم گرایاجاتا ہےوہاں کچھ بھی نہیں بچتاسیلاب بھی انسانی آبادیوں کےلیےایک ایٹم بم ہے


Abdul Qadir Hassan August 08, 2015
[email protected]

وطن عزیز میں ان دنوں سیلاب اور سیاست دونوں شانہ بشانہ رواں دواں ہیں۔ اگر سیلاب نہ ہوتا تو پھر عوام سیاست میں کہیں بے نام و نشاں گم ہو چکے ہوتے اب سیلاب کی وجہ سے تباہ و برباد عوام کا ذکر کرنا پڑ جاتا ہے منہ کا مزا بدلنے کے لیے سیاستدان بھی ان سیلاب زدگان کو بچشم خود دیکھ لیتے ہیں۔

یہ دیکھنا ایک ہوائی عمل ہوتا ہے جو ہوا کے ساتھ اڑ جاتا ہے اور تباہ و برباد عوام باقی رہ جاتے ہیں اس جہاز کو اڑتا دیکھ کر جو ان کے پریشان سروں پر سے گزر جاتا ہے اور چند خوبصورت وعدے اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں سیلاب جس دشمن کے انداز میں آیا کرتا ہے وہ اپنے ساتھ ایک ایسی تباہی لاتا ہے جو پاکستان کے متاثرہ علاقے کو تباہ و برباد کر جاتی ہے۔ گھروں کی دیواریں گر جاتی ہیں اور چھت زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔

ان گھروں میں آباد انسانوں کی طرح ان کے بیش قیمت مویشی بھی سیلاب میں مر جاتے ہیں۔ گھروں میں عمر بھر کا جو اثاثہ پڑا ہوتا ہے اس پر بھی پانی پھر جاتا ہے اس سب کا ماتم کرنے کے لیے چند انسان بچ جاتے ہیں اور بس۔ یہ سیلاب کے عذاب سے بچ کر نکلنے والے انسان حالات کے حوالے ہو جاتے ہیں سیلاب کے بعد کے ان حالات کے جو کسی کے بس میں نہیں ہوتے۔ انسان پر سیلاب سے بڑی تباہی شاید ہی کوئی آتی ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ جن آبادیوں پر ایٹم بم گرایا جاتا ہے وہاں کچھ بھی نہیں بچتا سیلاب بھی انسانی آبادیوں کے لیے ایک ایٹم بم ہے اور اپنے پیچھے وہی کچھ چھوڑ جاتا ہے جو کسی ایٹم بم کی تباہی کی یاد دلاتا ہے جیسے اس وقت میں اسے یاد کر رہا ہوں۔

پاکستان اور سیلاب کا ذکر تو چلتا ہی رہتا ہے اور چلتا ہی رہے گا پروف ریڈنگ کی غلطیوں کی طرح لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے سیاستدان کس جرات اور ہمت کے ساتھ یہ سب دیکھتے ہیں اور ان دکھی انسانوں کی حالت کا وہ معائنہ کرتے ہیں کبھی ہوائی اور کبھی زمینی اور کبھی کسی محفوظ کشتی میں گاؤ تکیہ لگا کر۔ یہی انسان وہ عوام ہیں جو ان کو اپنی خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور وہ ان ٹیکسوں کی قیمت پر حکمرانی کرتے ہیں اور سفر کے دوران بیٹھتے تو کسی ایک سیٹ پر ہی ہیں مگر اپنے ساتھ بیسیوں نئی دمکتی چمکتی گاڑیاں بھی رکھتے ہیں۔

جو ان کے قافلے کو پر رونق اور با رعب بناتی ہیں اور پھر وہ جن سڑکوں پر سفر کرتے ہیں وہ ان کے لیے خالی کر دی جاتی ہیں تا کہ قافلے کی رفتار کو کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو اور وہ پوری رفتار سے رواں دواں رہے۔ پروٹوکول کی کتابوں میں ان گاڑیوں کی رفتار کا بھی لکھ دیا جاتا ہے تا کہ پولیس وغیرہ ہوشیار رہے اور اس رفتار کے لیے سڑکوں کو خالی اور صاف رکھے۔

ہمارے سیاستدان ان دنوں آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایک بیرون ملک مقیم سیاستدان تو نہ صرف ان سیاستدانوں کے بلکہ ان کے ملک کے ہی خلاف ہے اور اس کی یہ پرانی سیاست ہے اتنی پرانی کہ برسوں پہلے وہ سندھ کے رہنما جی ایم سید سے سیاست کا سبق لیتا تھا جو علی الاعلان پاکستان کے خلاف تھے اور یہی سبق دیتے تھے کہ اسے ختم کرو۔ ان کے مکتب میں اس کے سوا کوئی مضمون نہیں تھا۔

اب وہ کسی سید سے تو محروم ہیں لیکن خود بہت کچھ بن چکے ہیں اگر اجازت ہوتی تو میں ان کا نام لکھ کر بات زیادہ واضح کر سکتا۔ بہر کیف ایک سیاستدان تو یہ ہیں دوسرے وہ ہیں جو ملک کے اندر حالات سے نبرد آزما ہیں اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنے حلیفوں اور حریفوں سے بھی۔ ہماری قومی سیاست میں بہت بڑی اور خطرناک تبدیلی عمران خان کی صورت میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ کھلاڑی اب ہمارے سیاستدانوں کی سیاست سے کھیل رہا ہے اور سب کے لیے ایک ہوّا فاسٹ باؤلر بن چکا ہے جب کہ اس کے ساتھیوں میں کوئی ایک بھی سیاستدان نہیں ہے سبھی اس کی طرح کسی نہ کسی غیر سیاسی فیلڈ کے سابق کھلاڑی ہیں جن کے پاس سوائے سیاست کے ہر تجربہ موجود ہے۔ میں نے غلط کہہ دیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ایک بھی سیاستدان نہیں ہے۔

سیاستدان تو ہیں چوہدری اعجاز جیسے مگر لگتا ہے وہ بھی کپتان سے بچ کر رہتے ہیں اور کسی ایسے اچھے وقت کے انتظار میں ہیں جب ان کی جماعت میں بھی سیاست شروع ہو گی اور سیاسی ہنگامے برپا ہوں گے لیکن یہ ہنگامے جب بھی ہوں تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں میں تو یہ ہنگامے شروع ہو بھی چکے ہیں۔ مجھے اس بات پر بہت غصہ آتا ہے کہ کپتان سے بہت پرانے سیاستدان بھی کپتان کی نئی سیاست سے پریشان کیوں ہیں یہاں تک کہ حکومتی پارٹی بھی پریشان دکھائی دیتی ہے اور اس نے ایک وزیر عمران کی مذمت کے لیے الگ رکھ چھوڑا ہے جو عمران کی کسی بات اور حرکت پر کوئی مذاق تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس نے بذلہ سنجوں کی کوئی پارٹی تیار کر رکھی ہو گی جو اسے لقمے دیا کرتی ہو گی۔

یہ سب عمران کی کچی پکی سیاست کا رد عمل ہے۔ اس طرح دوسری کئی سیاسی جماعتیں بھی عمران خان سے بدکتی ہیں اور اس کو غیر اہم قرار دیتی ہیں جب کہ بات صرف اتنی ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ ان جماعتوں سے مایوس اور بددل ہیں اس ماحول میں ایک نیا نویلا سرگرم اور پہلے سے مشہور لیڈر سامنے آیا تو وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور جو چھوٹے موٹے الیکشن ہوئے ان میں سے بعض میں کپتان کی پارٹی جیت بھی گئی۔

یہ سب ہمارے سیاستدانوں کی نالائقی تھی۔ کپتان کی کامیابی کم اور ان پرانے لیڈروں کی کوتاہی اور لاپروائی زیادہ اس کا نتیجہ نکلا بصورت عمران خان۔ سیلاب زدگان کے لیے ہوائی اور زمینی دوروں سے بات نہیں بنے گی حکومت اگر کچھ کرتی بھی ہے تو جناب وزیر خزانہ ڈار صاحب کوئی ایسا ٹیکس لے آتے ہیں جو سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔

تعجب ہے کہ حکومت کی اپنی برادری ہڑتالیں کر رہی ہے بلکہ ہڑتالیں کرتی چلی جا رہی ہے کیونکہ وزیر خزانہ کاروباری لوگوں کو ایسی خفیہ مار دیتے ہیں کہ وہ بلبلا اٹھتے ہیں۔ وزیر خزانہ کو اس ملک نے کیا نہیں دیا وہ ایک اکاؤنٹنٹ تھے آج وزیر خزانہ ہیں کئی دوسرے سیاستدانوں کو بھی اس ملک نے بادشاہ بنا دیا ہے لیکن وہ اس پر شکر ادا نہیں کرتے الٹا ظلم کرتے ہیں اس طرح سیاست کو چھوڑیں کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا لیکن ہر کسی کی اپنی مرضی بس عوام کو مزید تنگ نہ کریں فی الحال ان پر سیلاب کافی ہے بلکہ کافی سے کہیں زیادہ ہے۔

مقبول خبریں