’خاموشی نیم رضا‘

ہمارے یہ نئے چیف جسٹس ہمارے لیے ایک نعمت ہیں جو میں کسی دوسرے وقت بیان کروں گا۔


Abdul Qadir Hassan August 09, 2015
[email protected]

کسی صاحب اختیار پر لکھے کا اثر تو کچھ ہوتا نہیں البتہ اسے عوام سے ڈرانے کے لیے میں کبھی اسلامی تاریخ کے کسی واقعے کا تذکرہ کر دیتا ہوں کہ ہمارے حکمران تو وہ تھے جو ہمیں کسی تکلیف کی شکایت کا موقع ہی نہیں دیتے تھے اور عوام کے ساتھ اس قدر قریبی تعلق رکھتے تھے کہ ان کی ہر تکلیف کا ازالہ فوراً کر دیا کرتے تھے۔

وہ خود ایک مزدور سے زیادہ مراعات نہیں لیتے تھے اس لیے انھیں معلوم ہوتا تھا کہ ایک عام آدمی کیسے زندگی بسر کرتا ہے۔ ہمارے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ حکمران کی تنخواہ مزدور کے برابر ہونی چاہیے تا کہ اسے معلوم ہو کہ دو ٹکے میں پورا مہینہ کیسے گزر سکتا ہے۔ ہمارے یہ نئے چیف جسٹس ہمارے لیے ایک نعمت ہیں جو میں کسی دوسرے وقت بیان کروں گا۔

جج صاحب نے بہت کچھ یاد دلا دیا ہے۔ جب میں کسی تاریخی واقعے کا حوالہ دیتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ تو اور لوگ تھے آج کے زمانے میں یہ کیسے ہو سکتا ہے یعنی ان لوگوں کے چار ہاتھ ہوا کرتے تھے اور اسی طرح جسمانی طاقت بھی کئی گنا ہوا کرتی تھی کہ وہ یہ سب کر لیتے تھے۔

اب ایسے انسان پیدا ہی نہیں ہوتے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اگر مساوات نہیں ہے اور عام آدمی اور حکمران کی زندگی میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ عام آدمی بہت مشکل میں وقت گزارتا ہو گا لیکن ایک مسلمان حکمران یہ صورتحال برداشت نہیں کر سکتا چنانچہ آج اگر ایک مسلمان ملک کا جج حکمران اور مزدور کی تنخواہ میں مساوات کا ذکر کرتا ہے تو وہ اپنی اسلامی حکومت کا ایک بنیادی اصول بیان کرتا ہے۔ حکمران اور مزدور کی تنخواہ میں یکسانیت سے ہماری پہلی حکومت شروع ہوئی تھی۔ میں اس کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ پہلے خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکرؓ نے مزدور کی اور اپنی تنخواہ برابر کر لی تھی کہ وہ اس فرق کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جو کسی حکمران اور کسی عام آدمی کے درمیان پایا جاتا ہے۔

ہمارے سپریم کورٹ نے یہی بات اپنے فیصلے میں کہی ہے کہ حکمران کی تنخواہ مزدور کے برابر ہو گی تو وہ مزدور اور عام آدمی کے دکھ سے آگاہ ہو گا۔ خلیفہ اول نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ حکمران اور عام شہری برابر ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہیں۔ بعض قارئین کو اپنی تاریخ کے ان حوالوں سے الجھن ہوتی ہے لیکن وہ یہ سوچیں کہ ایک اسلامی ریاست میں کسی کا حق نہیں کھایا جا سکتا اور تنخواہوں میں فرق حق تلفی میں آتا ہے۔

ہمارے ملک کا سرکاری نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہے لیکن اس کا قانون اور اس کا نظام حکومت نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے۔ ایک شخص کی محنت کی کمائی میں اونچ نیچ ہوتا ہے اور کسی کے کاروبار کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے تو کسی کی کم لیکن حکومتی سطح پر کسی کو جو ملتا ہے اس میں تفریق جائز نہیں ہے کیونکہ حکومت ہم سب کی ہے کسی ایک کی نہیں ہے کہ وہ حکومت کے نام پر شاہانہ زندگی بسر کرے۔

آپ جب کسی کو غیر معمولی انداز میں زندگی بسر کرتا دیکھیں تو اس پر احتجاج کریں اور عدالت سے رجوع کریں کیونکہ کسی پاکستانی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے پاکستانی کی حق تلفی کر سکے اس کے مقابلے میں بڑھ کر سرکاری مراعات حاصل کر سکے۔ ان ھی دنوں چند جرنیلوں کی برطرفی کا جو حیرت انگیز واقعہ ہوا ہے وہ اسلامی روایات اور تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ پوری قوم اس فیصلے پر حیرت زدہ رہ گئی ہے کہ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی کسی پاکستانی نے کبھی ایسا سوچا ہے۔

پاکستان کی زندگی میں یہ انقلاب موجودہ سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے عہد میں برپا ہوا ہے جو فوجی جرنیلوں سے مرعوب اور ان کے محکوم عوا م نے پریشان ہو کر دیکھا ہے کہ کیا کبھی پاکستان جیسے مارشل لاؤں کے مارے ملک میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں ہوتا تو یہ رہا ہے کہ ایک جرنیل کو جب حکمرانی کا شوق چڑھا تو اس نے اسلام آباد سے قریب ہی جی ایچ کیو سے فوج کا ایک دستہ کسی میجر کی کمان میں دے کر وزیر اعظم کی قیام گاہ کی طرف روانہ کر دیا ۔

جس نے بڑے امن اور بغیر کسی رکاوٹ کے وزیر اعظم کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا اور اس کی جگہ میرے عزیز ہموطنو سے شروع ہونے والی تقریر نشر کر دی اور قوم نے اسے بھی ایک معمول سمجھ کر قبول کر لیا گویا کسی سپہ سالار کے سرکاری اختیارات میں کسی حکومت کو برطرف کرنے اور اس کی جگہ خود کو فٹ کرنے کا اختیار بھی شامل تھا۔

فوج کے سپہ سالار کے اختیار کی ایک مثال ایک فوجی حکمران بلکہ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے خود دی تھی جب وہ حکومت چھوڑ کر الگ ہو کر گھر بیٹھ گئے تو ان کی جماعت کنونشن لیگ کے چند لیڈر ان سے ملنے گئے اور گزارش کی کہ آپ بددل نہ ہوں اور تخت و تاج پھر سے سنبھال لیں۔ اس کے جواب میں جنرل جو فیلڈ مارشل بن چکے تھے ایوب خان نے کہا کہ دیکھو جب پاکستان آرمی کا سربراہ 'نو' کہہ دیتا ہے تو پھر یہ 'نو' ہی ہوتا ہے اسے 'یس' نہیں بنایا جا سکتا۔ ابھی اقتدار میں قائم ایک جرنیل یہ کہہ سکتا ہے تو کسی دوسرے کی کیا مجال کہ وہ فوج کی مرضی کے خلاف حکمران بن سکے۔

ان جرنیلوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا جس کی فی الحال واحد مثال صدر ایوب خان کی تھی۔ ان جرنیل صاحبان نے بے فکر ہو کر بلکہ بے خوف اور بے دھڑک ہو کر من مانی کی اور اس کی برملا سزا پائی لیکن یہ سزا قوم کو ایک حوصلہ دے گئی کہ اگر کوئی جرنیل پکڑا جا سکتا ہے تو کوئی کرپٹ سویلین بھی نہیں بچ سکتا خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے عہدے پر ہی فائز کیوں نہ ہو۔

سزا اور جزا انصاف کا بنیادی اصول ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی گنہگار اور مجرم صاف بچ کر نکل جاتے ہیں اور کتنے ہی اچھے پاکستانی فرض شناسی کا اجر نہیں پاتے۔

اسی صورت حال نے ہمارے وطن عزیز میں ناانصافی بلکہ ظلم کا نظام قائم کر دیا ہے۔ تعجب ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ قوم کے حق مار رہے ہیں اور یہ گناہ وہ علی الاعلان کر رہے ہیں مگر ہم خاموش رہتے ہیں۔ ہماری خاموشی کسی دلہن کی طرح نیم رضا بن جاتی ہے اور ہمارے مہربان قوم کے حجلہ عروسی میں کسی دلہا کی طرح گھسے رہتے ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں اپنی اس نیم رضا سے باہر آنا پڑے گا۔

مقبول خبریں