لاٹھی چارج آنسو گیس اور ولی خان

پولیس والے اگر اخلاق پر اتر آئیں تو پھر وہ بہت زیادہ بااخلاق ہو جاتے ہیں۔


Abdul Qadir Hassan August 10, 2015
[email protected]

کوئی دن نہیں جاتا کہ کہیں نہ کہیں پولیس آنسو گیس اور لاٹھی چارج نہ کررہی ہو اور کوئی نہ کوئی ٹیلی وژن چینل پولیس اور عوام کے درمیان اس معرکے کو دکھا نہ رہا ہو اور پھر میں ان معرکوں کو دیکھ کر ان میں اپنے آپ کو شریک تصور نہ کر رہا ہوں۔ بات یوں ہے کہ صحافت کا زیادہ تر وقت رپورٹنگ کرتے گزرا اور رپورٹنگ کا ایک بڑا عرصہ سیاسی سرگرمیوں کا ذکر کرتے گزرا اور سیاسی سرگرمیوں کا ایک دلچسپ حصہ پولیس اور عوام کی لڑائی کو دیکھتے اور اس پر لکھتے گزرا، مجھے وہ سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتی جب میں ایک جلسے کی رپورٹنگ کے لیے مرحوم جلسہ گاہ موچی دروازے پہنچا تو میدان پہلے سے ہی گرم ہو چکا تھا۔

ایک طرف پولیس کی لاٹھی بردار سپاہ تھی دوسری طرف اینٹ بدست عوام کا ہجوم تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے اپنی گاڑی میں بیٹھنا ہی مناسب سمجھا اور بیرون موچی دروازہ سرکلر روڈ کی ایک طرف گاڑی کھڑی کر کے اس میں بیٹھ کر ہی رپورٹنگ کرنے لگا۔ سب کچھ میرے سامنے تھا اسی دوران گاڑی کے کھلے شیشے سے آنسو گیس کا ایک بھڑکتا ہوا گولہ گاڑی کے اندر میرے پاؤں میں آکر گرا اور گاڑی دھوئیں سے بھر گئی۔

اس کی زہریلی گیس میری آنکھوں میں بھی بھر گئی میں بمشکل قریب ہی واقع میو اسپتال میں پہنچا۔ ڈاکٹر نے فوراً آنکھیں صاف کیں اور ہدایت کی کہ یہ دوائی بار بار ڈالنی ہو گی اور دریں اثناء کسی آئی اسپیشلسٹ کو بھی دکھا لیں بہر کیف مجھے سیاہ عینک لگ گئی۔ انھی دنوں خان عبدالولی مرحوم بھی لندن سے آنکھوں کا علاج کرا کے لوٹے تھے، ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے اپنا ہم مرض بھائی قرار دے کر ایک کالی عینک بھی مجھے تحفے میں دے دی اور ان تمام ہدایات کو دہرا دیا جو ان کے ڈاکٹر نے انھیں دی تھیں۔ خان صاحب جلسے جلوسوں کے گردوغبار اور پھر کیمرے کی تیز روشنیوں اور آنسو گیس کے مریض بن چکے تھے۔

یہ باتیں جن سے آپ کا کیا تعلق ہو سکتا ہے مجھے ایک کالم کا عنوان پڑھ کر یاد آ گئیں اور سیاست کا ایک غیر سیاسی واقعہ یاد آ گیا۔ اس کالم کا عنوان تھا لاٹھی چارج اور اس کا لکھنے والا بھی ایک پولیس افسر تھا۔ غلام عباس جو ان دنوں گوجرانوالہ میں متعین ہیں، اس سے پہلے جب وہ لاہور میں تھے تو کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی تھی۔

پولیس والے اگر اخلاق پر اتر آئیں تو پھر وہ بہت زیادہ بااخلاق ہو جاتے ہیں۔ میں کبھی گوالمنڈی چوک میں رہتا تھا اور قریب ہی امروز اخبار کے دفتر میں کام کرتا تھا ، علاقے کا تھانیدار میرا دوست بن گیا اور اس نے پیش کش کی کہ تم اگر قتل بھی کر دو تو بچالوں گا مگر افسوس کہ میں اس کی اس فراخدلانہ پیش کش سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ وہ کہتا تھا کہ افسوس تم اعوان ہو کر بھی قتل نہ کر سکے اور میری پیش کش بے کار گئی۔

میں ہمیشہ یہ محسوس کرتا رہا ہوں کہ میں پولیس اسٹیٹ میں رہتا ہوں۔ میرے گردوپیش میں ہر طرف پولیس کی حکمرانی محسوس ہوتی ہے چنانچہ اسی خوف کے تحت میں ہمیشہ لاہور کے کسی بڑے پولیس افسر سے تعلقات بنا کر رکھتا رہا ہوں کہ میرے بچاؤ کی کوئی صورت نکل سکے ورنہ اخبار والے تو بس خبر ہی چھاپ سکتے ہیں جو الٹی بدنامی بن جاتی ہے اگرچہ اتفاق سے کبھی ان بڑے پولیس افسروں سے رابطے کی ضرورت نہیں ہوئی لیکن جو تسلی حاصل رہی وہ کسی تحفظ سے کم نہ تھی اب جب میں نے ایک پولیس افسر غلام عباس کا کالم پڑھا تو قدرے رشک بھی پیدا ہوا کہ میں کبھی پولیس پر لکھنا چاہتا تھا اور اس کالم کا عنوان لاٹھی چارج ہی رکھتا۔ بہر حال اب لاٹھی کے ساتھ ایک پولیس والے نے کالم بھی لکھ دیا ہے تو اس نے اپنا حق ادا کیا ہے۔

ان دنوں پولیس کے آئی جی عہدے سے ریٹائر نوجوان بھی کالم لکھ رہے ہیں، ان لوگوں کو اپنا قلم پولیس پر استعمال کرنا چاہیے کہ ان کی سروس کے دوران پولیس کو کیا کیا واقعات پیش آئے جن سے پتہ چل سکے کہ پولیس بھی مشکلات سے گزرتی ہے۔ ذوالفقار چیمہ جیسے اعلیٰ ترین افسر کے کالم پڑھ رہا ہوں، ان سے عرض ہے کہ وہ اب پولیس اور سیاست دانوں کے پرانے تعلق پر قلم اٹھائیں۔کالم نگار ابھی چھوٹا افسر ہے اس کی سروس شاید پرامن رہی ہو لیکن چیمہ صاحب جیسے افسروں کی سروس صرف نوکری نہیں ہوتی وہ زندگی کا کوئی مقصد رکھتے ہیں اور اس کے لیے کام کرتے ہیں۔

اگر میں پولیس افسر ہوتا تو طاقت ور سیاستدانوں کو خوش رکھنے کے حربے بیان کرتا کہ میں کس طرح ان سے بچ بچا کرنوکری کرتا رہا ہوں۔ داد تو ان پولیس افسروں کا حق ہے جنہوں نے سیاسی لیڈروں کو بھگتا ہے اور اب تک سلامت ہیں۔ ایسے حق پسند اور جرات مند پولیس افسر انگریزوں کے دور میں ہوا کرتے تھے۔ میرے گاؤں کے کچھ افسر بھی تھے جنہوں نے حیرت انگیز حد تک جرات مندی کا ثبوت دیا اور مجرموں کو پکڑ کر عدالتوں کے سپرد کیا جو پولیس افسر اب اخباروں میں لکھنے لگے ہیں ان کا فرض ہے کہ پولیس کو عوام سے متعارف کرائیں۔ ویسے عوام اگرچہ پولیس سے خوب واقف ہیں لیکن پولیس کے اچھے پہلو بھی سامنے آئیں۔

بہرکیف میں پولیس والے کا خیرمقدم کرتا ہوں لیکن وہ پولیس کی شایان شان کالم لکھیں جس سے قارئین کو کچھ حاصل بھی ہو اور ہمیں بھی پولیس سے بچاؤ کا کچھ پتہ چلے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

مقبول خبریں