ہمارے ’غیر ملکی‘ سیاستدان
آج ہم اپنی آزادی کی یاد میں ایک اوریوم آزادی منا رہےہیں اورپوری قوم سبزپرچموں کےساتھ آزادی کی خوشی میں جھوم رہی ہے
PESHAWAR:
زندگی کی ایک اور مبارک باد مگر کس کو اپنی تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ بات بات پر بین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک مشہور مزاج نگار نے لکھا تھا کہ پاکستانی بچے بہت پیارے اور خوبصورت ہوتے ہیں مگر وہ جلدی بڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ اس مزاج نگار کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے خوبصورت پاکستانی بچوں کا بچپن بھی دیکھا اور ان کو بڑا ہوتے بھی دیکھا لیکن ہم بدبخت پاکستانیوں نے نہ ان کا ہنستا کھیلتا بچپن دیکھا اور نہ ان کو شرارتیں کرتے ہوئے بڑا دیکھا ہم نے ان کا بچپن ہی مسخ کر دیا انھیں بڑا ہونے ہی نہیں دیا۔ آج ہم اپنے یوم آزادی کی مبارک باد دیں تو کس کو دیں اور خوشی کے اس دن میں پیار کریں تو کس کو کریں۔ ہماری بدبختی کیا انتہا ہے کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنا بچپن چھین لیا ہے جس قوم کے بچے اپنے بچپن ہی میں کہیں گم ہو جائیں وہ کیا بڑے ہوں گے اور شرارتیں کر کے بڑوں کو تنگ کریں گے۔ یہ بھی کیا قوم ہے جو خدا کی زمین پر پیدا ہی بڑی ہوئی اور پھر لڑکپن سے محروم زندگی میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئی اور پھر کہیں غائب۔
آج ہم اپنی آزادی کی یاد میں ایک اور یوم آزادی منا رہے ہیں اور پوری قوم سبز پرچموں کے ساتھ آزادی کی خوشی میں جھوم رہی ہے اور اس کی زبان پر مبارک باد ہے مگر وہ کس کو مبارک باد کہے اس کے جو بڑے ہیں انھوں نے تو اس سے ان کی مبارک باد ہی چھین لی ہے اور ان کا ملک ایسا بنا دیا کہ اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے مبارک باد نہیں ہو سکتی کہ خوشی کا کوئی پہلو شاید ہی دکھائی دے۔ یہ انھی اور ان کے ساتھیوں کی سازش ہے کہ انھوں نے ہم سے ہمارا بچپن چھین لیا ہے جب کہ ان کے بچے پاکستان کے تمام خطروں سے دور ایک الگ زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ اپنے ہموطن پاکستانی بچوں پر ہنستے ہیں یا انھیں کسی دوسرے دیس کی مخلوق سمجھ کر اس پر ترس کھاتے ہیں۔ اگر آپ ضد نہ کریں تو میں ان لیڈروں کے بچوں یعنی اہل و عیال کا ذکر نہ کروں جنہوں نے اپنے بیرون ملک موجود بچوں کو ہم سے چھپا رکھا ہے لیکن آج کے دور میں ایسے راز محفوظ نہیں رہتے وہ افشا ہو ہی جاتے ہیں۔
جو لیڈر سامنے ہیں ان کا ذکر اپنے وزیر اعظم سے کرتے ہیں جن کے بیٹے ملک سے باہر ہیں اور کسی بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں اور وہاں اپنے گھر بنا لیے ہیں۔ قیمت کے اعتبار سے یہ گھر پاکستان میں موجود کسی محل سے کم نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے آباؤ اجداد سے جو دولت ملی ہے وہ پاکستان کی پیداوار ہے اور وہ اس میں اضافے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اب وہاں کے باشندے ہیں جہاں ان کا مال و متاع اور کاروبار ہے۔ کیا شاندار زندگی ہے وطن مالوف میں حکومت ہے بادشاہت ہے اور بیرون ملک اتنا کچھ ہے کہ ملک کی بادشاہت بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں وہاں سے بھی رزق دوں گا جہاں سے تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔ اس کی ایک مثال یہی ہے اور پھر ایسی کئی مثالیں ہیں۔ یہی لوگ اگر کہیں رہنے پر مجبور بھی کر دیے جاتے ہیں تو وہاں کاروبار شروع کر دیتے ہیں اور بہت بڑے اثاثے بنا لیتے ہیں۔ بس یوں سمجھیں اور یوں کہیں کہ دولت ان کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے۔
میں نے جو مثال دی ہے یہ تو اتنی معروف اور عام ہے کہ سارا پاکستان اس کو جانتا ہے۔ اب ذرا غیر کاروباری پاکستانیوں کی بات کرتے ہیں۔ یعنی وہ سیاستدان جو کسی کاروباری کی حیثیت میں پہچانے نہیں جاتے۔ عمران خان نہ جاگیردار ہیں نہ کار خانہ دار ہیں اور نہ ہی بیوپاری ہیں لیکن پاکستان سے ان کا تعلق بس واجبی سا ہے۔ یعنی وہ بھی دوسرے کئی سیاستدانوں کی طرح یہاں سیاست کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مال و متاع ملک سے باہر ہے۔ اموال اور اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے کہ انسان ان کے لیے کسی بڑے گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ہمارے عمران خان بظاہر کھلنڈرے رہے ہیں اور ان کا تعارف ایک کھلاڑی کا تھا لیکن وہ لگتا ہے کہ اندر سے بہت ہوشیار رہے ان کے والد مرحوم نے ایک بار عمران کی باتیں کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ہم نے اس سے کہا کہ تم یہاں جہاں کہو شادی کردیتے ہیں مگر باہر کے ملک میں ایسا نہ کرنا۔ ہمارے مشرقی خاندان کا وہ پوری طرح حصہ نہ بن سکے گی لیکن بعد میں خاں صاحب نے ایک انگریز خاتون سے شادی کر لی جو قریب قریب شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔
اخباروں میں شاہی خاندان کے ساتھ اس کی تصویریں بھی چھپتی تھیں۔ خان صاحب کے اس برطانوی خاتون سے دو بیٹے ہوئے جو اب برطانیہ میں ہیں اور برطانیہ کے شہری ہیں۔ ان کی والدہ کی دولت لندن میں بھی ان کے لیے کافی ہے اور یہاں بھی ایک شاندار وسیع و عریض محل موجود ہے۔ اب جن سیاستدان کی عزیز ترین متاع اولاد جہاں ہو گی اس کا دل وہیں ہو گا۔ اس طرح عمران ہمارے پاکستانی لیڈر بھی ہیں اور برطانوی بچوں کے باپ بھی جو ان کے پاس ہر سال آتے ہیں۔ اب عمران خان کل کلاں پاکستان کے 'وزیر اعظم' ہوں گے۔ ان کی نئی شادی نے ابھی سے خاتون اول بننا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی اس زنانہ سیاست سے خوش بھی ہیں اور پریشان بھی یہ میں نے دو بڑے سیاستدانوں کا ذکر کیا ہے جو اس وقت سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔
ہماری پیپلز پارٹی بھی دوغلی ہے پاکستانی بھی ہے اور بیرون ملک بھی ہے جس طرح یہاں پاکستان میں ان کے گھر بار ہیں اسی طرح دبئی انگلینڈ امریکا وغیرہ میں بھی وہ وہاں کے شہری ہیں۔ پیپلز پارٹی کا بانی ذوالفقار علی بھٹو صرف پاکستانی تھا لیکن اس کی اولاد ملک سے باہر بھی مقیم تھی مگر بھٹو کی وفاداری صرف پاکستان سے تھی۔ کسی دوسرے ملک سے نہیں تھی۔ پیرس دبئی وغیرہ میں قیام یہ بھٹو کے بعد کی باتیں ہیں۔
ہمارے اور بھی کئی سیاستدان دو ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن وہ درمیانے درجے کے سیاستدان ہیں۔ اگر کوئی صاحبزادہ ہمارے کسی نئے وزیر کی دولت سے کوئی غیر معمولی موٹر کار خرید لیتا ہے تو وہ ہو سکتا ہے کچھ اپنی کمائی بھی رکھتا ہو لیکن وہ سیاستدان نہیں ہے البتہ دو چار اونچے سیاستدان بھی اپنے اہل و عیال کو امریکا وغیرہ میں رکھتے ہیں لیکن میری معلومات مکمل نہیں ہیں۔ ان کا ذکر بعد میں۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ کون سیاستدان آپ کا ہے اور کون کسی دوسرے ملک میں بھی آباد ہے لیکن یہ سب یوم آزادی پاکستان میں منائیں گے کیونکہ ان کی سیاست یہیں ہے۔