ہم برسوں بعد کہاں کھڑے ہیں
ہماری بدحالی بدانتظامی کی وجہ سے ہے اور حماقتوں کی وجہ سے بھی غیر ضروری منصوبوں پر اربوں صرف کر دیتے ہیں
قیام پاکستان کے دن اور پاکستان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک دن گزر گیا اور اس دن کو یاد کرنے کا ہر ایک کا اپنا اپنا انداز تھا۔ نوجوانوں نے گا بجا کر اور جی بھر کر ہلہ گلہ کر کے یہ دن تمام کیا۔ بزرگوں نے پرانی یادیں تازہ کیں اور جو کچھ ہونا چاہیے تھا اور نہ ہو سکا اس پر شدید رنج کا اظہار کیا، ایک بزرگ کا فون آیا جو اپنے خوابوں کا پاکستان، پر سمجھوتہ کرنے پر ہرگز تیار نہ تھے اور پاکستان کے سیاستدانوں اور دانشوروں کو ذمے دار ٹھہراتے تھے ان کا خیال تھا کہ پاکستان کو خود بخود ہی جیسا بن جانا چاہیے تھا ویسا اسے بننے نہیں دیا گیا۔ اس ملک کو قدرت نے اتنے وسیلے عطا کر دیے تھے کہ اگر ان کو چھیڑا نہ جاتا ان کو قدرتی طور پر آگے بڑھنے دیا جاتا تو یہ نیا نکور ملک دنیا کے لیے ایک نمونہ بن جاتا۔ ایک کاشتکار کے بقول اگر حکمران اور ان کے کارندے کسانوں کو تنگ نہ کرتے تو وہ ان زمینوں پر نہ جانے کیا کچھ پیدا کر لیتے اور ملک کی آزادی کو ناقابل تسخیر بنا دیتے۔ ایک عرصہ تک اور اب بھی بڑی حد تک صرف چاول کی برآمد ہی ہمارا زرمبادلہ پورا کرتی رہی لیکن جب نئے دور کے ماہرین معاشیات نے ملک کی معاشی زندگی کو سنبھالا تو انھوں نے ہماری پیداوار کو کھانا شروع کر دیا۔
ہماری بیرونی آمدنی کہیں باہر یعنی بیرون ملک ہی رہی اور اس کی کمی ہم قرض لے کر پوری کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ اب تو اندیشہ ہے کہ یورپی ملک یونان کی طرح ہم بھی اس قدر مقروض ہو جائیں گے کہ یورپی یونین کے خوشحال ملکوں کی مدد سے ہی یونان کی طرح اپنی جان بچا سکیں گے لیکن ہمارے پاس تو کوئی یورپی یونین نہیں ہے اور جو ہے وہ یہ دیکھے گی کہ اس نیم جان میں اگر زندگی کا کوئی ایک آدھ قطرہ باقی ہے تو اسے نچوڑ لیا جائے اور پھر اسے پرے پھینک دیا جائے۔ انیس بیس کروڑ پاکستانیوں میں ہر ایک ہزاروں کا مقروض کر دیا گیا ہے۔ ضرور کسی دن کوئی بم پھٹے گا اور ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم اس قدر مقروض کر دیے گئے ہیں کہ اگر بک بھی جائیں تب بھی یہ قرض ادا نہیں ہو سکتا اور اپنے آپ کو مزید قرض کا حقدار بنانے کے لیے ہم نے اب ملک کی بالاقساط فروخت شروع کر دی ہے تا کہ خزانہ میں کچھ ہو تو اس میں اضافے کے لیے کوئی ہماری مدد پر تیار ہو۔
عالمی ادارے اپنے گاہکوں کو ہی مزید قرض دیتے ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستیں جب روس سے آزاد ہوئیں تو میں اتفاق سے ازبکستان میں تھا۔ پاکستانی سفیر نے اسلام آباد کے حکم پر مجھے کھانے پر بلایا ورنہ وہ مجھے جانتا تک نہیں تھا اور بلا تکلف یہ کہتا بھی رہا۔ اس کھانے میں پاکستان کے ایک ریٹائرڈ اونچے درجے کے بیوروکریٹ بھی موجود تھے جو میرے شناسا تھے۔ میں نے خیر و عافیت پوچھی تو ان کی آمد کی وجہ کا پتہ چلا کہ آئی ایم ایف نے ان کی خدمات حاصل کی ہیں تا کہ وہ وسطی ایشیا کے نئے آزاد ملکوں کو قرضے پر آمادہ کر سکیں کیونکہ روس کے اقتدار میں رہنے والے ان ملکوں یا ریاستوں کو بیرونی قرضوں کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ قرضہ دینے میں انھیں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں اور ان نو آزاد ریاستوں کے حکمرانوں کے بقول ان کا کام کسی قرضے کے بغیر چل رہا تو وہ قرض کیوں لیں۔ میں صرف ایک ریاست ترکمانستان میں دیکھ چکا تھا کہ وہاں کے عوام مفت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ برائے نام قیمت پر گرم ٹھنڈا پانی، بجلی اور آٹا تک مل رہا ہے۔
ٹرانسپورٹ مفت ہے اور مکان کا کرایہ نہ ہونے کے برابر۔ میرا پاکستانی دوست وہاں ایک مقامی لڑکی کو ساتھ رکھ کر اس کے نام پر سب کچھ مفت حاصل کر رہا تھا۔ دوسری کئی مراعات ایسی تھیں کہ میں بتاؤں تو کوئی تسلیم نہ کرے۔ اپنے عوام کو ایسی آسان زندگی دینے کے باوجود یہ ریاستیں قرض پر تیار نہ تھیں۔ معلوم نہیں میرے یہ پاکستانی افسر کامیاب ہوئے یا نہیں۔ ایسی آسان زندگی کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک تو رشوت نہیں تھی۔ دوسرے نظم و نسق کو دانشمندی سے چلایا جاتا تھا اور پوری ریاست اپنی اوقات میں رہتی تھی۔ بس صرف 'واڈکا' ایک قسم کی شراب خریدا جاتا تھا جو قریباً ازبک کی خوراک کا حصہ تھا۔ ایک ازبکی دوست کو پاکستان آنے کی دعوت دی تو اس نے معذرت کر دی کہ میں پہلے بھی ایک بار پاکستان گیا تھا مگر وہاں واڈکا نہیں ملتا تھا۔ بڑی مشکل سے وقت گزرا اور کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ آیا۔
معلوم ہوا کہ اب تو ان آزاد مسلمان ریاستوں کی زندگی بہت بدل گئی ہے اور غربت بھی آ گئی ہے۔ یہ کوئی نو ریاستیں ایسی تھیں جو مسلمان تھیں مگر کمیونزم کے نظام میں زندہ تھیں۔ ان کی نگرانی ماسکو سے ہوتی تھی اور ان کی مالی مدد بھی ماسکو کرتا تھا بلکہ یوں کہیں کہ مالی نظم و نسق بھی روس کے پاس تھا۔ کوئی ریاست کسی عالمی مالیاتی ایجنسی کی مقروض نہیں تھی اور اتنی آمدنی تھی کہ ان کی آبادی کے لیے کافی تھی۔ ہم پاکستانی تو ان کے مقابلے میں بہت رئیس ہیں یعنی ہمارے وسائل ان سے بہت زیادہ ہیں، ہم قرض لینے نہیں دینے والوں میں شامل ہیں اگر ہم اپنے وسائل کی صحیح دیکھ بھال کر سکیں۔ مگر جتنا کچھ پیدا ہو وہ ہم کھا جائیں اور اسے بیرون ملک محفوظ کر لیں تو پھر وسائل خواہ کتنے بھی ہوں غربت ختم نہیں ہو سکتی۔ تعجب ہوتا ہے جب ہمارے ڈار صاحب یہ خوش خبری سناتے ہیں کے آئی ایم ایف نے ہماری قرض کی ایک نئی ضرورت پوری کرنے کا وعدہ کر لیا ہے تو میں خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ کہیں ایک شاعر کی یہ بات سچ نہ ثابت ہو جائے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
کیونکہ ہم اپنی فاقہ مستی میں خدا نہ کرے جلد ہی مدہوش ہو جائیں گے۔ یہ غیر ملکی قرضے کسی سود خور والے کے ہوتے ہیں جو قرض کی وصولی کے لیے جان لینے پر بھی اتر آتا ہے اور یہ اس کا حق ہوتا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کے مقروضوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ وہ بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قرض خوا ان سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ مثلاً دنیا کے کسی ایئر پورٹ پر آپ کا جہاز ضبط ہو سکتا ہے اسی طرح دوسری کارروائیاں بھی۔ ہم پاکستانیوں کو ایسی باتیں سوچنی بھی نہیں چاہئیں کیونکہ ہم حقیقت میں ایک خوشحال ملک ہیں۔ ہماری بدحالی بدانتظامی کی وجہ سے ہے اور حماقتوں کی وجہ سے بھی غیر ضروری منصوبوں پر اربوں صرف کر دیتے ہیں لیکن عوام کی آسودگی پر کسی بیرونی قرض کا انتظار کرتے ہیں اور یہ بے حد خطرناک صورتحال ہے، ہم نے اپنے مفید اور آمدنی والے ادارے بیچنے شروع کر دیے ہیں۔ ابھی ابھی قطر کو ایک مفید اور نفع بخش ادارہ فروخت کیا ہے۔ ہم نے اپنی پالیسیاں نہ بدلیں تو پھر ہمیں بدل دیا جائے گا کسی بدترین زندگی میں۔ جلد ہی ہوش میں آئیں تو بہتر ہے اور ملک بیچنے کی پالیسی ترک کر دیں۔