ہر اِک بُت کو صنم خانے میں دعویٰ ہے خدائی کا

رئیس فاطمہ  اتوار 20 ستمبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کہتے ہیں جب کسی پر بُرا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ برے وقت میں ہی دوست اور دشمن کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ محسن بھوپالی کا ایک شعر:

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے‘ سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آتی ہے مصنوعی سی مجبوری

گزشتہ کئی دنوں سے ڈاکٹر سر ضیا الدین احمد کے نواسے اور انتہائی مشفق، ذمے دار، ہمدرد اور منکسرالمزاج ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کے صاحبزادے کو سر جھکائے، مایوس اور دل گرفتہ، سادہ لباس میں ملبوس ایجنسیوں کے اہل کاروں کے نرغے میں دیکھ کر صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ہر مخلص پاکستانی کو دکھ ہوا۔ لیکن پی پی کے ان جیالوں، وزیروں اور زرداری کے کاسہ لیسوں کے رویے پر حیرانی بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم جن کی شباہت اپنی والدہ اور نانا دونوں سے ہے۔ دوست نوازی اور مقتدر ہونے کے طفیل خود کو فرعون سمجھنے لگے تھے اور وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔

لیکن کیا وہ اکیلے اس تمام کرپشن کے ذمے دار ہیں؟ ڈور تو کہیں اور سے ہل رہی تھی۔ لیکن افسوس کہ اقتدار کے اسٹیج پر ناچتی اور کرتب دکھاتی کٹھ پتلیوں نے یہ نہ سوچا کہ جوں ہی ان کو نچانے والی ہستی کے ہاتھ سے ڈور چھوٹے گی، تمام کٹھ پتلیاں اوندھے منہ زمین پہ گری ہوں گی۔ ایسے وقت میں تماشائیوں کو اپنی اپنی نفرت نکالنے کا بھی موقع مل جائے گا اور پھر کٹھ پتلیاں بھی وہ جن کی ڈور ان کے ہاتھ میں جو مدمقابل کے خفیہ راز کھولنے کی دھمکی دے کر خود بیرون ملک فرار ہو جائیں یا کسی NRO کے ذریعے فرار کروا دیے جائیں اور شکاری کے جال میں ڈاکٹر عاصم جیسے لوگ پھنس جائیں۔

جنھوں نے دوستی کی خاطر بہت کچھ قربان کر دیا۔ تب مجھے وہ مشہور کہاوت یاد آ جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے ’’حاکم کی اگاڑی سے اور گھوڑی کی پچھاڑی سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے‘‘ لیکن پاکستانی سیاست میں یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ’’حاکم کی اگاڑی اور پچھاڑی دونوں سے بچ کر رہنا چاہیے‘‘ کہ یہ صرف موقع پرست ہی نہیں سنگدل بھی ہیں۔ وہ جو ملک کا سب کچھ لوٹ کے لے گئے، وقت پڑنے پر سب سے پہلے انھیں پھنساتے ہیں۔ جن کی معاونت سے یہ قارون کے خزانے کے مالک بنے۔

جب کسی صاحب حیثیت شخص جسے خصوصی طور پر کسی طاقتور شخصیت کا قرب حاصل رہا ہو، مصیبت میں خود اپنی غلطیوں کی وجہ سے پھنستا ہے۔ تو بہت سے ایسے لوگوں کی بن آتی ہے جو اس سے کدورت یا حسد رکھتے ہوں۔ ڈاکٹر عاصم نے دوستی کے عوض جو کچھ حاصل کیا، اس کے عوض اپنی خاندانی شرافت، نجابت اور نیک نامی سب کو داؤ پر لگا دیا۔ یہ ایک ایسا بدنما دھبہ ہے جو وہ کبھی نہیں دھو سکیں گے لیکن کچھ تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کی خوشی قابل دید ہے۔

ان کا یہ فرمانا کہ ’’ڈاکٹر عاصم طوطے کی طرح بولے چلے جا رہے ہیں۔ جو نہیں بتانا چاہیے وہ بھی بتا رہے ہیں۔‘‘ وہ بہت صحیح کر رہے ہیں۔ یہی رویہ ان کی عالی نسبی اور نجیب الطرفین ہونے کی دلالت کرتا ہے کہ ان کی نظریں جھکی ہوئی ہیں، عرق ندامت سے پیشانی آلودہ ہے۔

اگر وہ کرپشن اور بدعنوانی کے میدان کے کھلاڑی ہوتے تو گرفتاری پر مسکراتے ہوئے، ٹی وی کیمروں کی طرف عیارانہ مسکراہٹ سے دیکھتے ہوئے دو انگلیوں سے “V” کا نشان بناتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوتے۔ جیسا کہ عادی مجرم لوگ کرتے ہیں لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ انھی کے ہم پیشہ تجزیہ کار روزانہ میاں مٹھو کی طرح ڈاکٹر عاصم پر مسلسل تبرہ بھیج کر خوش ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں کس کی اور کہاں کی دشمنی نکال رہے ہیں۔

لیکن کیسی حیران کن بات ہے کہ اپوزیشن لیڈر، وزیر اعلیٰ اور دیگر نے ڈانٹ کھا کر زبان تو کھولی، لیکن ڈاکٹر عاصم کی حمایت میں نہیں بلکہ رکن سندھ اسمبلی علی نواز شاہ کے لیے۔ کون کس سے کس بات کا انتقام لے رہا ہے اور ذاتی دشمنی اور حسد کو ’’ماں سے زیادہ چاہے تو پھاپھا کٹنی کہلائے‘‘ والی کہاوت کی تفسیر بنا ہے۔

بہت جلد سامنے آ جائے گا۔ ماہر تعلیم، نظریہ ساز، فطری فلسفی، ماہر تعلیم، پارلیمنٹرین، ماہر ریاضی دان، اسکالر اور گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر سر ضیا الدین احمد کی یاد میں حکومت پاکستان نے ان کی خدمات اور غیر معمولی قابلیت کے اعتراف میں 14 اگست 1994 میں ڈاک کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا، جس کی قیمت اس وقت پاکستان پوسٹ نے ایک روپیہ رکھی تھی۔ اس ٹکٹ پر ڈاکٹر ضیا الدین کی ٹائی اور سوٹ میں ملبوس وہ تصویر ہے جس میں ڈاکٹر عاصم حسین کی جھلک ملتی ہے۔

1994 میں جس ڈاک ٹکٹ کی قیمت 1 روپیہ رکھی گئی ہو آج کی کرنسی کے اعتبار سے اس کی قیمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ملٹی کلر میں یہ ڈاک ٹکٹ آج بھی بہت سے لوگوں کے پاس بالخصوص محکمہ ڈاک کے خزینے میں موجود ہے۔ کیا ڈاکٹر عاصم حسین جن کے خاندان کا شجرۂ نسب طب اور تعلیم کے حوالے سے انتہائی معتبر رہا ہے۔ وہ اپنے نانا کی اس تصویر کے آگے خود کو کیسا محسوس کر رہے ہوں گے؟

بڑا شور میڈیا پہ مچایا جا رہا ہے کہ کسی کو نہیں بخشا جائے گا، بے رحم احتساب ہو گا۔ سب کی شامت آئے گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو سامنے ہے وہ تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ تمام بڑے مجرم حیرت انگیز وارداتیں کر کے فرار ہو گئے یا جان بوجھ کر انھیں کسی طے شدہ فارمولے کے تحت باہر بھجوا دیا گیا اور جب ایجنسیوں نے گرفتاری کا امکان ظاہر کیا تو حکومت وقت کو یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ ’’ہمارے آدمی پہ ہاتھ ڈالا گیا تو بات بہت دور تک جائے گی۔‘‘ ایسا لگا جیسے یہ کوئی ’’کوڈ ورڈ‘‘ ہو اور جس کے لیے کہا گیا ہے وہ اس ’’پیغام‘‘ یا ’’دھمکی‘‘ کو مکمل طور پر سمجھ گیا ہو۔

اسی لیے ’’حکم حاکم‘‘ کے تحت گرفتاریاں منسوخ کر دی گئیں تا کہ کرپشن کی گاڑی چلتی رہے اور چھوٹی موٹی گرفتاریاں ظاہر کر کے وردی اور سوٹ دونوں کو تحفظ حاصل رہے۔ ایسے موقعوں پر بہت سے ضرورت مند وعدہ معاف گواہ اور اشتہاری مجرم بن کر اصلی لوگوں کو بچا لیتے ہیں تا کہ جہوریت ڈی ریل بھی نہ ہو اور اس گاڑی کو چلانے والے ’’مہربان‘‘ بھی ناراض نہ ہوں۔ موجودہ اور گزشتہ دس بیس برسوں کے ماحول کو نظر میں رکھیے اور نظیر اکبر آبادی کی معروف نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ کے چند اشعار دیکھیے اور سر دھنیے:

ٹُک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں‘ مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
گر تو ہے لَکّھی بنجارہ اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی اک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا تھال کٹوری چاندی کی‘ کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی
کیا برتن سونے چاندی کے‘ کیا مٹی کی ہنڈیا چٹنی
کچھ کام نہ آوے گا تیرے‘ یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی ہاٹ میں بکھرے گی‘ ہر آن بنے گی جاں اوپر
نوبت نقارے بان نشاں‘ دولت مند فوجیں لشکر کی
کیا مسند تکیہ ملک مکاں‘ کیا چوکی کرسی تخت چھپر
کیا ڈبے موتی ہیروں کے‘ کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بغچے تاش مشجر کے‘ کیا تختے شال دو شالوں کے
دھن دولت نانی پوتا کیا‘ اک کنبہ کام نہ آوئے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

یہ اگلے اور بھلے وقتوں کی باتیں ہیں۔ آج کے بنجارے ہر جگہ سے مال و دولت لوٹ کر اپنی اولادوں کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ کسی بنجارے کا کندھا خالی نہیں ہے۔ دونوں کاندھوں پہ اعمال کے بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں۔ مگر ان کے لیے جو قیامت پہ یقین رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔