پاکستان طالبان اور امریکا
چین آج بھی دفاعی ٹیکنالوجی میں سابق سوویت یونین کا محتاج رہا...
فارسی زبان کی ایک مثل ہے، خود کردہ را علاج نیست۔ یعنی اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں۔ یہی حال کچھ پاکستان اور امریکا کا ہے، پاکستان کے حکمرانوں نے اس لیے سوویت یونین کی حامی حکومت کا خاتمہ کروادیا کہ اُن کے خیال میں افغانستان ایک ایسی اسلامی ریاست بنے گا جو ایک اعتبار سے پاکستان کے زیر اثر ایک ریاست ہوگی، جیسا کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک ہیں جس میں نیپال اور کسی حد تک بنگلہ دیش بھی شامل ہے جو عالمی خارجہ پالیسی میں ان کا حامی رہے گا اور اس طرح وسطی ایشیائی ممالک کی سپلائی لائن پاکستان بنے گا۔
پھر عالمی افق پر افغانستان ہر مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دے گا مگر پاکستان کے تنگ نظر سیاست دان یہ بھول گئے کہ عالمی امور میں ایک ایسا ملک جس کی معاشی اور سیاسی باگ ڈور امریکا کے ہاتھ میں ہوگی، وہ کیسے پاکستان کو اتنا خودمختار کرنے پر رضامند ہوگا، جب کہ امریکا ہر اعتبار سے پاکستان بلکہ اب وہ عالمی اعتبار سے بھی بالادست ہے، چین کے زیادہ تر کارخانے امریکا اور نیٹو ممالک کے آرڈر کی وجہ سے رواں دواں ہیں کیونکہ چین میں نسبتاً مصنوعات سستی بنتی ہیں، اس طرح چین اور نیٹو ممالک دونوں کا فائدہ ہے لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھے کہ چین امریکا کا متبادل بن سکتا ہے تو پھر وہ احمقوں کی جنّت میں رہتا ہے،
چین امریکا کے مقابلے میں زیادہ قوم پرست ملک ہے، اُس کی کثیر آبادی کے لیے اس کی تمام پالیسیاں بنائی گئی ہیں اور اب چین اپنے آپ کو وسعت دینے کے لیے اپنے پڑوسی ممالک میں ہاتھ پائوں پھیلا رہا ہے جب کہ ہمارے یہاں کے نام نہاد دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ چین اپنا یار ہے اور اس پر جاں نثار ہے۔ پاکستان کے وزیر تعلیم نے تو حد کردی چینی زبان کو سندھ میں لازمی قرار دینے کی سفارش کردی، ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ چینی زبان میں تبدیلی لائی جارہی ہے۔
ایک نئی زبان وہاں کے دانشور متعارف کرانے والے ہیں جس کو جلد پیش کیا جائے گا۔ مائوزے تنگ، چواین لائی، لیوشائوچی کی یکے بعد دیگر اکابرین کی روانگی کے بعد چین ایک سوشلسٹ ملک نہیں رہا، دوم وہ عالمی خارجہ پالیسی میں مغرب سے کسی قسم کی بھی کشیدگی کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر اُس خارجہ امور میں تھوڑا بہت جھکائو ہے تو وہ روس، شمالی کوریا، ویت نام اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہے۔ رہ گیا پاکستان تو وہ محض نعرے کی حد تک ہے، چین آج بھی دفاعی ٹیکنالوجی میں سابق سوویت یونین کا محتاج رہا ہے اور آج بھی وہاں کی تمام تر دفاعی ٹیکنالوجی روسی طرز کی ہے۔
اگر آپ غور سے دیکھیں اور ایوب خان کی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹر کا مطالعہ کریں تو ایک وقت ایسا تھا کہ ایوب خان نے پنڈت جواہر لعل نہرو سے کہا کہ ہم آپ سے دفاعی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں یعنی ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ بات چین بھارت سرحدی جنگ کے بعد ہوئی، جس پر بھارتی وزیراعظم نے اپنی حکمت عملی واضح کرتے ہوئے کہا کہ Against whom? یعنی کس کے خلاف؟ کیونکہ بھارت عالمی افق پر اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا جب کہ ہم ہمیشہ سے امریکی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔
اس گفتگو کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہم آج بھی خوابِ خرگوش میں ہیں، یقیناً چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور غالباً کرپشن کی سطح وہاں بہت کم ہے، وہ ہمارے یہاں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں، مگر یہاں کون آئے گا اور کیسے کام کرے گا، جب اپنے ہی لوگ اغوا برائے تاوان کا شکار ہیں تو کوئی کیونکر آنے لگا اور ہر قدم پر کک بیک کون دے گا۔ مقامی بھتہ بھی دینا ہوگا، البتہ جمہوری اور غیر جمہوری دونوں حکومتیں جب امریکا سے تعلقات میں تلخی آتی ہے تو پھر ایک وزیراعظم چین بھاگتا ہے کہ ڈرو مت ہم چین سے متبادل انتظام کرلیں گے۔ یہ تمام باتیں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے ہیں کیونکہ چین کو خود امریکا کی اشد ضرورت ہے۔
ایسی صورت میں ہم چین پر انحصار کی بات کرتے ہیں تو کیوں؟ گوکہ ڈپلومیسی کی مد میں ایک جریدے کے مطابق پاکستان دو ملین ڈالر سے زیادہ ایسی تعلقاتِ عامہ کی ایجنسیوں کو رقوم فراہم کرتا رہا ہے جو بے سود ثابت ہوئیں، دوسرے ملکوں کی سفارت کاری کیا ہے، کیا ہماری پی آر ایجنسیوں نے کمرے سے باہر نکل کر بھی دیکھا کہ امریکا کو کتنے پُرمغز حکماء کی ضرورت ہے، ان لوگوں نے امریکا کو بھی پاکستان کی ریاست یا گائوں سمجھ رکھا ہے۔ یہ تاثر صرف پاکستان کے لوگوں کو مزید بے شعور بنانے کے لیے دیا جارہا ہے اور پاکستانی عوام اپنی کم علمی کی بِنا پر اس پروپیگنڈے کا شکار ہورہے ہیں اور ابلاغِ عامہ کے اکثر ادارے اس کام میں حکومت کے ساتھ ہیں۔
آخر یہاں پر لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ہم قدم قدم پر امریکا کے محتاج ہیں اور کرپشن مزید محتاج بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سندھ گورنمنٹ کے چیک ماہِ جون اور جولائی میں بائونس ہوگئے اور کیش نہ ہوسکے، مگر مرکز میں وزارتوں میں مزید وسعت پیدا کی گئی، یعنی ہر پارٹی کو خوش رکھو تو پھر غیر ضروری طور پر امریکا کے خلاف پروپیگنڈوں کی ضرورت کیا ہے؟ اس بات کا ادراک اب امریکا کو بھی ہوچلا ہے، لہٰذا کنٹینر کی روانگی پرانے ریٹ پر ہی ہوئی۔ آخر ان سات ماہ میں کوئی فیصلہ ہم کیوں نہ کرسکے، وہ سرفروشانِ قوم کہاں گئے جو راستہ روک رہے تھے۔
اس سے امریکا پر یہ واضح ہوگیا کہ امریکا کے خلاف جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ حکومتی دہری پالیسی کا عکس ہے اور یہ ایک خسارے کا سودا ہے۔ اس لیے اب امریکا پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے۔ آپ ایک نظر افغانستان پر ڈالیے۔ افغانستان کے سیاسی حکمراں جو اس وقت حکومت میں ہیں، ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ڈیورنڈ لائن کو سرحد نہیں مانتا بلکہ اٹک تک کا دعویٰ کرتا ہے اور اُس طبقے نے اپنے طالبان بنا رکھے ہیں جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کی اکثر خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی طالبان ہیں جو افغانستان میں دراندازی کرتے ہیں۔
اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہماری حکومت کی ایماء پر ایسا ہوتا ہے بلکہ وہ خود اتنے بااثر اور مضبوط ہیں کہ پاکستان ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا یا یوں سمجھیے کہ وہ پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہیں اور ایک ایسا طبقہ بھی طالبان کا ہے جو ازخود طالبان ہیں۔ یہاں ازخود سے مراد یہ ہے کہ انصاف کی کمی، غربت و افلاس نے ان کو پاکستان سے بغاوت پر مجبور کردیا ہے اور وہ رہنمائی کے بغیر ازخود کارروائی کرتے ہیں، یعنی اس طرح اگر دیکھا جائے تو طالبان کی تین اقسام ہیں، پنجابی طالبان ،دراصل یہ تیسری قسم ہے، سرائیکی علاقہ پس ماندگی کی ریکھا سے بھی صد فیصد کم ہے۔ اس لیے ان علاقوں کے لوگوں کو طالبان بننے میں دیر نہیں لگی۔
وڈیروں اور حکمرانوں کا جبر، کم علمی، پس ماندگی، ناانصافی نے اپنا کام کر دِکھایا۔ واضح رہے کاشت کرنے کے لیے زمین کا ہموار کرنا، کھودنا، پانی دینا اور بیج ڈالنا ضروری ہے۔ اگر زمین ہموار ہو، کھودی گئی ہو، بیج بھی دستیاب ہو، مگر پانی نایاب تو پھر فصل کیونکر ہوگی۔ دوسری اہم بات گرم ممالک کا پودا سرد ممالک میں پھل نہیں دے سکتا اور اگر پھل دے گا تو وہ اس قابل نہ ہوگا کہ انسان اس کو کھاسکے،
لہٰذا طالبان بننے کے لیے ماحول سازگار تھا، ورنہ محض تبلیغ ان کے پیغام کو آگے نہیں بڑھاسکتی تھی، یہ تو کہیے کہ اگر طالبان میں لچک ہوتی اور دوسرے مسالک کے لیے اور عورتوں کے معاملے میں وہ نرم ہوتے تو پھر یہ پیغام ایسے پھیلتا جیسا کہ سوشلزم کا زمانہ تھا اور سوشلسٹ سیلاب سے دنیا متاثر ہورہی تھی۔ ایسی صورت حال میں اگر ملک کے حکمرانوں نے حالات کو نہ سمجھا اور عوام کو مزید گمراہ کرتے رہے اور وزیروں کو قانون سے بالاتر بنانے کا کام جاری رہا تو نہ جانے کون سا نیا طوفان برپا ہو۔ طالبان کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست میں ڈھالیں جو دنیا اور اپنے ملک کے لیے ایک نمونہ ہو۔
قریبی اور ہمسایہ ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھایاجائے، خارجہ پالیسی کا مرکزی خیال ملک کے عوام کو اپنا بنا کر ناقابلِ تسخیر بنایا جاسکتا ہے اور پھر یہ خبریں نہ آئیں گی کہ فلاں گڑبڑ میں فلاں ملک کا ہاتھ ہے۔ اس موقع پر حکمرانوں کے لیے حضرت سلیمان بن دائود کا یہ قول رقم کرتا چلوں کہ خوفِ خدا علم کی ابتدا ہے لیکن احمق حکمت اور اچھی تربیت کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک ہر روز تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔