مکروہ چہرے

فرح ناز  ہفتہ 21 مئ 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

دہشت گردی ہمارے ملک کا سنگین مسئلہ ہوتی جارہی ہے، پورے ملک میں تمام شہروں اور دیہاتوں، گاؤں حتیٰ کہ کوئی کونہ اس سے محفوظ نہیں، دہشت گردی کئی انداز اور کئی طریقوں سے کی جاتی ہے، دشمن اندرون ملک اور بیرون ملک دونوں جگہ ہوسکتے ہیں۔

قتل و غارت، قبضہ، مہنگائی کا جن، معاشرے میں بے حیائی کا پھیلا دینا وغیرہ وغیرہ، مقصد یہی ہوتا ہے کہ ملک کی بنیادیں کمزور کی جائیں اور وہاں کے لوگوں کو تباہ و برباد کردیا جائے۔ ان کی سوچ محدود کردی جائے، ان کے وسائل محدود کردیے جائیں، قتل و غارت کا خوف خود کو غیر محفوظ ہونے کا خوف، ان تمام کاموں کے لیے یقیناً بے تحاشا روپے کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر وہ لوگ جو یہ کام کروا رہے ہوتے ہیں وہ اسی معاشرے سے اپنے مطلب کے عورت و مرد منتخب کرتے ہیں۔ کبھی انفرادی اور کبھی ادارے بن کے ان پر بے شمار پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے اپنے مطلب کے کام لیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک سیمینار میں ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ہماری سوسائٹی بدحالی کا شکار ہے، بنیادی ضرورتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور نوجوان شدید بے روزگاری کا شکار ہیں۔

اور تقریباً ہر سیمینار میں کچھ اسی طرح کے ہی خیالات سننے کا موقع ملتا ہے۔ سیمینار میں شامل لوگ بعد میں کچھ کھانے پینے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر شاید کسی اور سیمینار میں جانے کا پلان کرتے ہوں گے۔جی بالکل لوگوں کو آگاہی دینا بھی تو ایک کام ہے۔ اب یہ کام الیکٹرانک میڈیا بہت زور و شور سے کر رہا ہے، بہرحال کہنا یہ چاہتی ہوں کہ غربت و افلاس اور بنیادی ضرورتوں کا ناپید ہونا کیسے کیسے جرم کرواتا ہے اور کیسے کیسے بدشکل مکروہ چہرے معاشرے میں پیدا کردیتا ہے کہ پھر برسوں لگ جاتے ہیں ان بدنما داغوں کو دھونے میں۔

ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پہلے جو ٹوٹی ہوئی چپلوں میں لوگ گھومتے تھے وہ دو چار سال بعد سوک اور ٹویوٹا کے مالک کیسے بن گئے؟ ایک اسکول ٹیچر خاتون یکدم سے کیسے ہائی اسٹیٹس افورڈ کرنے لگیں؟ جو لوگ چند ہزاروں کی نوکری کرتے تھے وہ اب کئی نوکروں کو کیسے رکھ لیتے ہیں؟ جادو کا چراغ ہے کیا؟ ادھر رگڑا ادھر حاضر۔اپنی آنکھوں دیکھا بھی سنیے، پڑوس میں ایک خاتون رہتی ہیں، میاں ان کے ایئرلائن میں تھے، محلے والے بتاتے تھے کہ بڑی تنگدستی رہتی تھی ان کے گھر، میاں کو پینے پلانے اور رنگین مزاج ہونے کی بنا پر بیوی بچے کراچی اور خود اسلام آباد میں تھے، زیادہ پینے کی وجہ سے اور خواتین کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی وجہ سے ایئرلائن نے فارغ کردیا۔

15-16 سال کا ایک لڑکا محلے میں رہتا تھا، گانے اور ایکٹنگ کا شوق تھا، گھر والے اس کے پرانے زمانے کے خیالات رکھتے تھے، ان خاتون نے اس لڑکے کو یعنی 15-16 سال کے لڑکے کو اپنے گھر میں رکھنا شروع کردیا۔ میاں صاحب بھی بیوی کی کارکردگی پہ مطمئن تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کے ساتھ یہ لڑکا بھی ان کے گھر رہنے لگا، جب حالات تنگدست ہوئے یہ لڑکے صاحب بھی صاحب روزگار ہوگئے، خاتون خانہ نے اپنی اداؤں سے اس لڑکے کو اچھا خاصا تربیت دے کر باہر کام کے لیے تیار کیا اور خاتون خانہ اور یہ لڑکے صاحب ساتھ ساتھ کام کرتے رہے، گھر میں خوشحالی ہونا شروع ہوگئی۔

میاں صاحب کو گھر میں ہی پینا پلانا ملنے لگا اور ان کو کیا چاہیے تھا، پرانی خواتین دوست بھی گھر میں آنے لگیں، لو بھئی ان کا انتظام تو ٹھیک ہوگیا ، دیکھتے ہی دیکھتے یہ مالی طور سے کمزور گھرانہ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کا مالک ہوگیا، دبئی میں گھر بھی ہوگیا اور لشکارے بھی ہوگئے۔

محلے کا لڑکا مستقل طور پر ان کے گھر کا فرد ہوگیا، ملنے ملانے والوں کو بھائی بتایا جاتا، اور خاتون خانہ ’’آپا‘‘ ہوگئیں۔ میاں صاحب گھر پہ مزے کرنے لگے اور باہر کے تمام کام یہ خاتون اور ان کے ’’بھائی‘‘ صاحب نے سنبھال لیے۔محلے والے بھی حیران ہوگئے کہ ایک دو سال میں کون سا خزانہ ہاتھ آگیا کہ بچے بھی لندن میں پڑھنے چلے گئے، پھر پتہ چلا کہ ایک ان کے ’’انکل‘‘ لندن میں رہتے تھے، انھوں نے تمام انوسٹمنٹ کی ہے، بدلے میں یہ خاتون ان انکل کو سروسز دینے لگیں، اب یہ خاتون اپنے ’’بھائی‘‘ کے ساتھ مل کر ان کا بہت بہت خیال رکھتیں، کچھ اور خواتین و حضرات بھی ان دونوں بہن بھائیوں نے اپنے گروپ میں شامل کرلیے جو غربت سے چھٹکارا چاہتے تھے اور بہت جلدی امیر ہونا چاہتے تھے۔

کاروبار خوب خوب چمک گیا، پبلسٹی بھی خوب ہوگئی، بھلا ہو ان انکل کی بیوی کا جو پڑھی لکھی خاتون تھیں اور اکاؤنٹینٹ کی جاب کرتی تھیں، آتے جاتے ان کے کانوں میں تمام معاملات کی بھنک پڑ گئی اور ابھی دو سال سے ’’انکل‘‘ بالکل غائب ہوگئے، سنا ہے کہ ایڈورٹائزنگ کمپنی پر بھی انکل کی بیگم نے تمام معاملات کے ساتھ اس کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔  بہن اور بھائی دبئی میں مزے سے سیٹل ہوگئے ہیں، خاتون خانہ کے میاں صاحب رنگینیوں کے ساتھ ان کے لیے کچھ اور بہن بھائی ڈھونڈتے ہیں اور اس طرح ان کے روزگار ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں۔

یہ صرف ایک سچی کہانی نہیں جگہ جگہ اس طرح کے لوگ سرگرم ہیں جو نہ صرف اپنی آخرت تو خانہ خراب کرتے ہی ہیں بلکہ دوسروں کو ایسی گندگی اور غلاظت میں دھکیلتے ہیں کہ ان کا اس سے نکلنا ناممکن ہوجائے۔

جہاں ہماری آرمی، رینجرز، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سرگرم ہے وہیں اس ڈومیسٹک دہشت گردی کو بھی کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔ تھوڑی سی ضروریات کو پورا کرنے کا جھانسا دے کر یہ لوگ کس طرح بے روزگار خواتین اور لڑکیوں سے گندگی اور غلاظت کا کام کرواتے ہیں کہ اللہ توبہ۔ نہ قانون کا خوف نہ اللہ کا خوف۔ کہ کرپشن کی جڑیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں اور پیسے کی ہوس میں یہ لوگ اندھا دھند کئی معصوم لوگوں کو اپنے کاروبار کا حصہ بناتے ہیں۔یہ مکروہ چہرے روزانہ اپنے کردار بدل بدل کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ کبھی ان کے مہینہ کا راشن دے کر، کبھی اپاہج بچوں کی مدد کے بہانے، یہ اپنے کالے دھندے چلاتے ہیں اور گندگی و غلاظت کو پورے محلے سے پورے معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔

غربت و افلاس کی ماری ہوئی بچیاں جب نوکری کے لیے جاتی ہیں تو کس کس طرح ان کو اپنے جھانسے میں پھنساتے ہیں، تھوڑے سے پیسوں کا لالچ دے کر، ان کالے چہروں والے لوگوں نے کئی کئی گھرانے تباہ و برباد کیے اور مستقل یہ کرتے جا رہے ہیں۔جہاں شہر کراچی میں ایک سکون کی فضا قائم ہوئی ہے وہیں پر لوگوں نے بھی اطمینان کی سانس لی ہے۔ مگر خرابیاں بے تحاشا پیدا ہوچکی ہیں جن کو امید کرتے ہیں کہ ہماری فورسز بہت اچھے سے درست سمت کی طرف لے آئیں گی۔

بہت جلدی امیر ہونے والے لوگ جلد بے نقاب بھی ہوں گے انشا اللہ۔ اللہ غارت کرے ایسے لوگوں کو اور ان کے گھروں کو جو اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ حرام کاری اور غلاظت کے لیے۔ بہن بھائی جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، شرابی، رنگین مزاج خاوند صاحب اپنی عورتوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو غیرت اور شرم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اسی طرح کے کاموں سے سو مجرم پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے میں ہر قسم کی دہشت کاری کا باعث بنتے ہیں۔ خواتین اگر جاب کرنے نکلی ہیں تو ان کی عزت و احترام کا خیال رکھا جائے۔ جس طرح کہ پہلے ہوتا تھا۔ نہ کہ ان کو Objective بناکر اپنی دکان بڑھائی جائے ایک آپریشن ان کالے چہروں کا ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ لوگ کم پڑھے لکھے اور غریب لوگوں کو استحصال نہ کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔