یہ ہمارے گلے شکوے

فرح ناز  اتوار 19 مارچ 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

خواتین کے حوالے سے پچھلے کالم میں جو بات ہوئی اس حوالے کافی E-mail آئیں کہ صرف خواتین ہی مظلوم نہیں۔ مرد بھی ہمارے معاشرے میں مظلوم ہے،اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔

قارئین  سے میں نے کبھی اختلاف نہیں کیا،کوئی بھی معاشرہ عورت اورمرد کے رویوں کے بغیر تشکیل نہیں پاتا، لیکن کیونکہ ہمارے معاشرے پرحکمرانی مرد کی ہے،اجارہ داری مرد کی ہے اور برسہا برس سے یہی ہمارے تجربے ہیں کہ عورت اور اس کے حقوق کو ہمیشہ پامال کیا گیا ہے۔ ہمیشہ تذلیل عورت کے حصے میں آئی ہے،اب ہم اس کو بدنصیبی کہیں یا قانون کی کمزوری یا پھر علم کی ناکامی اورجہالت کی بھرمارجو بھی ہو مگر عورت پرظلم وستم کی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت اور مرد زندگی گزارنے کے لیے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں کی اہمیت سے کوئی بھی انکاری نہیں۔ مگر تمام لوگ اپنی سمجھ کے مطابق ہی چلتے ہیں۔ ایک مثال سنیے، ایک  صاحب حیثیت شخص  کی 3 شادیاں ، تینوں کوگھر اور نوکر چاکر، دولت کی فراوانی ہے۔ ان کی ایک خاتون کو مشہورہونے کا شوق ہوگیا، انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنے قریبی دوست کو یہ معاملہ سپردکردیا۔ اب ظاہر ہے وہ تینوں کو زیادہ وقت تو نہیں دے سکتے ایک خاتون کے ساتھ وہ زیادہ وقت گزارتے ہیں اب وہ قریبی دوست جوکہ ان کی بیگم کے دیکھنے میں وہ دن و رات ان کے ساتھ جڑے رہتے ہیں لوگ باتیں بھی بناتے ہیں مگر کیا کیجیے اس کا؟ صلاحیتیں تو خداداد ہوتی ہے روپے پیسے سے خریدی نہیں جاسکتی ہے۔

اب ان خاتون نے کئی نیچے درجے کے ایسے لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کرلیا ہے جو ان کو مشہور ہونے کے گُر بتاتے ہیں ان کے لیے کام کرتے ہیں یہ خاتون ان کو شاپنگ کرواتی ہے اور ان کو جو بھی ہوسکے مشہور کرواتی ہے۔ میاں صاحب نے کیونکہ خود یہ راستہ اپنی بیگم کو دکھایا ہے تو ان کوکوئی اعتراض نہیں اور جب  وہ اعتراض کرتے بھی ہیں تو انھیں کے دوست ان کو سمجھادیتے ہیں کہ یہی تقاضا ہے، اب ان خاتون کی عقل پر بھی سر دھنیے کہ جب آپ میں صلاحیتیں نہیں ہے تو کب تک کرائے کے لوگوں سے اپنے آپ کو منواتی رہیں گی۔

منہ پر سب ہی تعریف کرتے ہیں اور پیچھے ایک لمبی لسٹ احمقانہ حرکتوں کی اب آپ خود یہ پڑھ کر سوچیے کہ کس کا کتنا رول ہے،کون اپنے مفادات اور خوشی کے لیے کس کو ستا رہاہے؟ اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ مردوں کی قربانیوں کی بھی ایسی زبردست داستانیں رقم ہے اور شاید اسی لیے دنیا چل رہی ہے۔

عبداللہ کی کہانی بھی سنیے۔ عبداللہ نے میڈیکل میں پوزیشن لی تو والد نے مزیداعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھیج دیا،کھاتا پیتا گھرانہ، تعلیم یافتہ خاندان، بہنیں شادیوں کے بعد اپنے گھر سدھارگئیں۔ اچانک عبداللہ کے والد ڈپریشن کا شکار رہنے لگے،کیونکہ بیٹا امریکا میں زیرتعلیم تھا۔اس لیے فون پر والد سے بات ہوتی رہی، والد کچھ ایسے بیمار ہوئے کہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والدہ اکیلی رہ گئی۔ بہنوں نے والدہ کی دیکھ بھال کا ذمہ اٹھایا اورعبداللہ کو بے فکر ہونے کا کہا۔

عبداﷲ  ویسٹ کی زندگی کو بھرپور انجوائے کرتا ہے۔ ایک خوبصورت لڑکی بھی مل گئی جوکہ پاکستان میں ہی عبداللہ کی دوست رہی تھی۔ دونوں نے شادی کا فیصلہ بھی کرلیا۔ کافی سال محبت میں گزرگئے اور پھر دونوں نے شادی بھی کرلی۔ شادی کے ایک ہفتے کے بعد ہی عبداللہ کی والدہ پر شدید فالج کا دورہ پڑا۔ عبداللہ نے تمام چیزوں کو فوراً سمیٹا اور اپنی نئی دلہن کو لے کر فوراً امریکا سے پاکستان پہنچ گیا۔ والدہ کی حالت بے انتہا خراب تھی۔

دو کمروں کا ایک اپارٹمنٹ تھا جس میں عبداللہ نے بھی آکر والدہ کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنی نئی شادی شدہ زندگی شروع کی، نہ کوئی جاب اور نہ کوئی دولت کے انبار، تمام بوجھ ایک ساتھ سر پر پڑا، نئی نویلی دلہن  عیش وآرام کی عادی تھی، ایک ہفتے میں ہی تنگ آگئی، میاں سے بولی، تم سارے دن نوکری ڈھونڈنے کے بہانے باہر رہتے ہو اور اپنی بیمار ماں اور گھر میرے سر پر منڈھ دیا ہے روزانہ لڑائی جھگڑے شدید ہوتے چلے گئے اور ایک مہینے میں ہی طلاق کی نوبت پہنچ گئی کئی سالوں کا پیار، محبت سب مٹی ہوگیا۔

عبداللہ شدید ٹوٹ گیا، بیگم اپنا سامان سمیٹ کر الگ ہوگئی، شدید علیل ماں، بے روزگاری اور ناکام شادی اچھا خاصا انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد ۔ بہنوں نے عبداللہ کا ساتھ دیا، ماں کی خدمت اور تیمار داری میں اس کا ہاتھ بٹایا۔امریکاکی تعلیم سے ہمکنارتھا، جلد ہی اچھی جاب مل گئی اور  اپنی دن رات  کی محنت سے اچھا مقام بنالیا، اچھا گھر، ماں کے لیے نرس، علاج و معالجے میں کوئی کمی نہیں اورکئی سال گزرنے کے باوجود آج تک وہ اپنے بیتے ہوئے دنوں کو نہ بھول سکا اور اس نے فیصلہ کیا کہ جب تک والدہ حیات ہے وہی ان کی خدمت کرے گا اور کسی کو ان کے آخری ایام میں ان کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دے گا۔

یہ بھی اسی معاشرے کا زندہ کردار ہے جو ہمارے ارد گرد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ایسے بہت سے کردار بہت سے مرد اور بہت سی خواتین جنھوں نے قربانیوں کی مثالیں پیش کیں اور آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔مگر وہ لوگ بھی بہت ایکٹیو ہے جو منفی رویوں کو پھیلاتے ہیں، جو معاشرے میں بگاڑکا باعث ہے اور یہ ایک پوری منصوبہ بندی ہوتی ہے، باہرکے ممالک کی فنڈنگ بھی شامل ہیں اور بہت سے عوامل! مگر بات سوچنے والی یہ ہے کہ ہم کون ہیں، ہمیں کہاں جانا ہے اورہماری روایات کیا ہے؟

ہماری نسلیں کس ماحول میں پروان چڑھے گی اور ہم کس کردارکو فالو کریں گے، بات صرف مرد اور عورت کی نہیں بات عزت واحترام کی، بات حقوق کی، بات کردارکی بھی تو ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’کفرکا معاشرہ چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں‘‘ ایسے ایسے شاندار کردار ہمارے سامنے موجود ہیں، حضرت فاطمۃ الزہراؓ ایک شاندار خاتون، ایک شاندار مثال۔

بد قسمتی سے ہم جن کو فالوکررہے ہیں، جن کو ہمارے ارد گرد مسلط کردیاگیا وہ، وہ کردار اور مثالیں ملیں جن سے ہم آزاد تو ہوجائیںگے جن سے ہم ماڈرن تو کہلائیںگے جن کی بدولت لبرل ازم تو پھیلائے گی مگر انسان اور انسانیت کہیں بہت پیچھے رہ جائے گی۔ عورت کی عزت اور مرد کا مقام کہیں بہت پیچھے چلا جائے گا، لالچ، انفرادی مفادات، ہوس، حرص، بد دیانتی، یہ سب وہ لا علاج بیماریاں ہیں جو ایک دوسرے کو لگ جاتی ہے، پھیل جاتی ہے، ہدایت تو صرف اللہ سے مانگنے سے ملتی ہے، رزق کا وعدہ بھی اللہ کا ہے، زندگی اور موت بھی اللہ کا اختیار ہے، خونی رشتے بھی وہی عطا کرتا ہے پھر انسانوں کو غرورکیسا؟ فخرکیسا؟ خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ ہی جائیںگے، پھر یہ سارے عذاب کیسے؟

سمجھ لیجیے منفی سوچیں، منفی رویے پیدا کرتی ہیں کچھ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت جدوجہد اور صحیح سمت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی اگلی نسلوں کے لیے بہت کام کرنے ہیں، عورت اور مرد کے وہی رول وہی کردار اپنانے ہیں جو اللہ پاک نے عطا کیے اور جو نبیوں نے پریکٹیکلی کرکے دکھائے آپ اور ہم ہی یہ سب مثالیں بناسکتے ہیں نہ کمزور عورت نہ کمزورمرد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔