وزیراعظم کا جےآئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی ممبر پر اعتراض

ویب ڈیسک  پير 17 جولائی 2017
جے آئی ٹی ارکان نے گواہوں پر دباؤ ڈالا اور حراساں کیا، آئی ایس آئی رکن کا رویہ جارحانہ تھا۔ نواز شریف۔ فوٹو : فائل

جے آئی ٹی ارکان نے گواہوں پر دباؤ ڈالا اور حراساں کیا، آئی ایس آئی رکن کا رویہ جارحانہ تھا۔ نواز شریف۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراض میں کہا ہے کہ تفتیشی ٹیم میں شامل آئی ایس آئی کے افسر بریگیڈئیر نعمان سعید نامزدگی کے وقت اس ادارے میں تعینات ہی نہیں تھے جب کہ گواہوں سے تفتیش کے دوران بھی ان کا رویہ جارحانہ تھا۔

وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر 9 صفحوں پر مشتمل اپنے اعتراضات جمع کرائے جن میں استدعا کی گئی کہ  زمینی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا جائے۔

وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں تحقیقات کے لیے اپنے کزن اختر راجہ کی فرم ’’کوسٹ ‘‘ کی خدمات حاصل کرکے قانون کی خلاف ورزی کی، لاء فرم کو بھاری رقوم دی گئیں جو قومی خزانہ کو بھاری نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : آئی ایس آئی رکن نے ایمانداری سے کام کیا

نواز شریف نے جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی رکن پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی رکن کا رویہ انتہائی جارحانہ تھا، جے آئی ٹی میں نامزدگی کے وقت یہ افسر آئی ایس آئی کا حصہ ہی نہ تھا اور اسے معاہدے کے تحت ایجنسی سے منسلک کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے جب کہ اس افسر کی آئی ایس آئی سروس اور تنخواہ ریکارڈ میں ظاہر ہی نہیں ہوتی۔

وزیر اعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ شریف فیملی کے خلاف غیر تصدیق شدہ دستاویزات اور زبانی معلومات پر نتائج اخذ کئے گئے، جے آئی ٹی رپورٹ شکوک و شبہات، مفروضوں پر مشتمل ہے اور وزیر اعظم کو عوام کی نگاہ میں بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ غیر جانبدار تحقیقات کے بغیر فیئر ٹرائل نہیں ہو سکتا، جے آئی ٹی نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گواہان سے اپنی مرضی کے مطابق بیان لینے کی کوشش کی، گواہان پر نہ صرف نواز شریف کے حق میں دیئے گئے بیانات واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے عدالتی اختیارات استعمال کئے اور دستاویزات کے لئے غیر قانونی طور پر چیئرمین نیب کو بلایا جب کہ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک کے نمائندوں پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے، حالانکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر تحقیقات نہیں کی جاسکتی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پوری تحقیقات جے آئی ٹی ممبران کی بد نیتی کو ظاہر کرتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے مختلف افراد کو قانونی فرمز کی خدمات لی گئیں ، تمام شواہد قانون کے برخلاف اکٹھے کئے گئے، جے آئی ٹی کے حاصل کئے گئے شواہد قانون کے مطابق قابل قبول نہیں اور فائنڈنگز کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔

عدالت عظمی میں دائر کی گئی درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ کے جلد نمبر 10 سے متعلق موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جلد نمبر 10 فراہم نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اسے مشتہر نہ کرنا بدنیتی ظاہر کرتا ہے، کیس چلانے سے پہلے جلد نمبر دس فراہم کی جائے، جلد نمبر دس کی فراہمی کے بعد ہی وزیراعظم عدالت کے سامنے موقف پیش کر سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔