لاہور پھر لہولہان

غلام محی الدین  منگل 25 جولائی 2017
آپ اندازہ لگائیں کہ اگر کسی غیرملکی دہشت گرد کو پاکستان میں نادرا کا کوئی دفتر شناختی کارڈ بنا دیتا ہے۔ فوٹو : فائل

آپ اندازہ لگائیں کہ اگر کسی غیرملکی دہشت گرد کو پاکستان میں نادرا کا کوئی دفتر شناختی کارڈ بنا دیتا ہے۔ فوٹو : فائل

دہشت گردی وطن عزیز کے چہرے پر ایک مشعل بدنمائی کی صورت اختیار کرچکی ہے، ملک کے تمام شہری اسی امید پر دن گزار رہے ہیں کہ ایسا وقت آئے گا جب ریاست عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ٹھوس ضمانت فراہم کرسکے گی۔

اس میں شک نہیں کہ فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ دہشت گردوں کے لئے دہشت گردی کی کوئی کارروائی کرنا ماضی کی نسبت اب بہت مشکل ہے لیکن یہ بات بھی تسلیم کئے بن چارہ نہیں کہ دہشت گردی تنظیموں میں اب بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بناسکتے ہیں۔

گزشتہ روز کوٹ لکھپت کے علاقے میں ارفع کریم آئی ٹی ٹاور کے نزدیک پرانی سبزی منڈی میں ہونے والے خودکش حملے میں 27 سے زائد افراد شہید اور 50 زخمی ہوچکے ہیں اور جیسا کہ ایسے واقعات میں ہوا کرتا ہے، مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا اندیشہ ہے اس دھماکے میں ان پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جو اس مقام پر مسمار کی جانے والی عمارت پر کام کرنے والے مزدوروں اور انجینئرز کی سکیورٹی پر مامور تھے۔

دہشت گردوں کی اس واردات سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے ایک آسان ہدف چنا اور اس کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ ابتداء میں دہشت گردی کا رخ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک میں بھی تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان ممالک نے بہتر حکمت عملی اور معاملے کو اس کی سنگینی کے مطابق اہمیت دے کر اپنے شہریوں اور لوگوں کو احساس تحفظ فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ان عالمی قوتوں کی سب سے بڑی ترجیح اپنے لوگوں کو مطمئن رکھنا ہے باقی دنیا میں ہونے والی بربادی پر انہیں کچھ تردد نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے بہت سے مسلم ممالک میں آگ کے شعلے خود ان عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کیلئے بھڑکائے ہیں۔ لہٰذا دہشت گردی سے نمٹنے کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اس بحران سے بچنے کی حکمت عملی ہم نے خود بنانی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہمیں خود کرنا ہے۔ بظاہر دوستی کا دم بھرنے والی عالمی طاقتیں ہمیں دہشت گردی سے بچانے کیلئے نہیں آئیں گی۔

اب اگر ہم اپنے معاملات پر نظر ڈالیں تو صورتحال انتہائی حوصلہ شکن ہے یہ حقیقت پاکستان کے عوام کیلئے انتہائی کرب اور اذیت کا باعث ہے کہ ہماری حکومتیں اکثر ان اقدامات پر سنجیدگی سے عمل کرانے سے کتراتی رہی ہیں جن کا فیصلہ عسکری اور سکیورٹی حکام کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد کیا جاتا رہا ہے۔

پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے سفاکانہ حملے اور معصوم بچوں کے قتل عام کے بعد غموں سے چور دل گرفتہ پاکستانی قوم کو ایک مرتبہ پھر احساس ہوا تھا کہ اب پوری سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردی کے اس عفریت کا قلع قمع کردیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔ جس میں شامل 20نکات پر عملدرآمد کو ہر صورت یقینی بنانے کا عہد کیا گیا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر مکمل عملدرآمد کے بارے میں مایوسی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ یہاں ہم مثال کے طور پر نیشنل ایکشن پلان کے ایک نقطہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ پلان کا تیسرا نقطہ کہتا ہے، ’’دہشت گرد تنظیموں اور مسلح گروہوں کو ملک کے طول و عرض میں سرگرمیوں کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ ‘‘

اب اس ایک نقطے پر مکمل عملدرآمد کیلئے ریاست کے تمام اداروں اور حکومت کی سنجیدگی درکار ہے۔ اس نقطہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلح گروہوں کی عسکری اور فکری تمام سرگرمیوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیا جائے۔ جہاں تک مسلح گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنے کا سوال ہے تو عسکری اداروں نے اس کام میں رتی برابر کوتاہی نہیں دکھائی لیکن حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہاں پر جابجا سیاسی مصلحتیں نظر آئیں گی۔

سندھ حکومت صوبہ میں رینجرز کے اختیارات پر مسلسل الجھتی رہی ہے۔ صوبائی حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے سے کہیں زیادہ اس بات کی فکر دامن گیر رہی کہ کسی طرح ملک سے کرنسی سمگل کرتے ہوئے گرفتار ہونے والی ماڈل ایان علی اور اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات میں گرفتار ہونے والے ڈاکٹر عاصم کو ملک سے نکالنے میں کامیابی حاصل ہوجائے۔ اس مقصد کیلئے سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ منت سماجت سے لے کر ڈرانے دھمکانے تک ہر حربہ استعمال کیا اور بالآخر اپنے اس عظیم مقصد میں کامیابی حاصل کر کے رہی۔

اس سارے قصے میں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی گئی کہ عوام اس رویے پر اپنی حکومت کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ اس ایک نقطہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردوں کو کارروائیوں سے روکنے کیلئے ان کی اور ان کے سہولت کاروں کی ہر طرح کی سرگرمیوں کی نگرانی لازم ہے۔

ایک دہشت گرد کو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے کام میں بہت سے لوگ مدد دیتے ہیں۔ متعلقہ اداروں نے ان کی ہر طرح کی مالی معاونت کو روکنا ہے۔ ان لوگوں تک پہنچتا ہے جو دہشت گردی کیلئے نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہیں ان سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا ہے جو حملہ آوروں کے رہنے کا بندوبست کرتے ہیں ان کی ضروریات کو پوری کرتے ہیں۔ ان کیلئے ریکی اور جاسوسی کرتے ہیں اور انہیں ان کے ہدف تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے یہ بات لازم ہے کہ ہر ریاستی ادارہ اپنی تمام تر صلاحیتووں کو اس ایک مسئلے پر مرکوز کرے اگر اس زنجیر کی ایک کڑی بھی اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہی تو پھر باقی شعبوں کا پوری دیانتداری سے کیا ہوا کام بھی بہتر نتائج پیدا نہیں کرے گا۔

آپ اندازہ لگائیں کہ اگر کسی غیرملکی دہشت گرد کو پاکستان میں نادرا کا کوئی دفتر شناختی کارڈ بنا دیتا ہے اور اس سلسلے میں اختیار کئے جانے والے طریقے کار کو محض اپنے ذاتی فائدے کیلئے نظرانداز کر دیتا ہے تو اس ایک کوتاہی کے کتنے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی حکومت کا کردار بھی کوئی قابل رشک نہیں رہا۔ مرکزی حکومت کی تمام تر مشنری وزیراعظم اور ان کے خاندان کو پاناما کرپشن کیس کے تباہ کن اثرات سے بچانے پر کمر بستہ ہے۔

حالانکہ یہ معاملہ صرف اور صرف حکمران خاندان کی ذاتی سرگرمیوں سے متعلق ہے لیکن حکومت کے تمام اہم وزراء اپنی تمام تر توانائیاں کسی بھی طرح اس معاملے کو حکمران خاندان کے حق میں موڑنے کیلئے صرف کررہے ہیں۔ حالانکہ ایک مؤثر بلدیاتی نظام کھڑا کرکے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاسکتی ہے اور اس مقصد کیلئے استعمال میں لائی جانے والی پولیس فورس پر کام کا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے لیکن محض اپنی سیاسی گرفت کو مضبوط رکھنے کیلئے مؤثر بلدیاتی نظام متعارف نہیں کرایا جارہا ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک سیاسی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر تمام توانائیاں دہشت گردی کے خاتمے پر مرکوز نہیں کی جاتیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔