شیطانی چرخے

شہلا اعجاز  بدھ 30 اگست 2017
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

’’وہ 1994ء کا ماڈل ہے جب اسے یہاں لایا گیا تھا تو صرف اس کا ڈھانچہ تھا۔‘‘
’’یعنی اس کے پہیے وغیرہ۔‘‘

’’کچھ بھی نہیں تھے۔ بس اسکوٹرکا ڈھانچہ تھا یا یوں سمجھ لیں کہ بس لوہا تھا۔ پھر اس میں 2017ء کا فلاں کمپنی کا فلاں ہارس پاور کا انجن لگایا گیا۔ اس کی نئی لائٹیں، نئی گدی، نئے وہیلز، سب کچھ نیا لگایا گیا یہ ایک 2017ء کی نئی بائیک بن گئی اور اسے دیکھنے والا کہہ نہیں سکتا کہ یہ نئی ہے یا پرانی۔‘‘
’’اور اس کی رجسٹریشن۔۔۔۔۔ظاہر ہے کہ انجن تو اس کا بدل گیا۔‘‘
’’ہاں انجن تو بدل گیا، میرا خیال ہے کہ رجسٹریشن بھی نئی ہی ہوگی کیونکہ ظاہر ہے کہ انجن ہی بدل گیا تو اس کا نمبر کہاں ہوگا پھر یہ اتنا پرانا 1994ء کا ماڈل ہے اس کے کاغذات بھی پتہ نہیں کہاں ہوں گے۔‘‘
’’اس پر اندازاً کتنی لاگت آئی ہوگی؟‘‘
’’زیادہ سے زیادہ بیس ہزار تک تو آئی ہوگی۔‘‘

اس بچے کو اس کی لاگت کے بارے میں علم نہ تھا لیکن 1994ء کے ماڈل کی موٹر بائیک کو ایک موٹر مکینک کی دکان پر 2017ء میں تبدیل ہونے پر اسے حیرت بھی تھی اور خوشی بھی کہ موٹر مکینک نے کس طرح اپنی صلاحیتوں اور محنت سے ایک بیکار لوہے کے ڈھانچے کو کارآمد سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہوئی سائیکل میں تبدیل کردیا۔

زندگی ایک نعمت ہے اور اس کی حفاظت کرنا قدرکرنا، خدا کا شکریہ ادا کرنا انسان کا فرض ہے، لیکن اپنی زندگی میں تعیشات اورخواہشات کے جن کا پیٹ پالنے کی خاطر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی بچاتے بچاتے دوسروں کی زندگیوں کو مال مفت سمجھ کر انتہائی بیدردی سے ایسی ظالمانہ حرکات کر جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف ایک بلکہ کئی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں،ان بہت سی جانوں کا قتل کس کی گردن پر ہوتا ہے۔ ہم بظاہر لوگوں کی نظروں سے تو بچ جاتے ہیں لیکن کیا اس کی نظر سے بچنا ہمارے لیے ممکن ہے جو ہم سب پر نظر رکھتا ہے۔

احمد پور شرقیہ میں ہونے والے انتہائی اذیت ناک حادثے نے پورے ملک میں سوگواری کی فضا قائم کردی تھی ڈیڑھ سو سے زائد انسانی نفوس راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے اور جو بچ گئے وہ اس حادثے کی تلخیوں کو ساری عمر اپنے دل سے کھرچ نہیں سکتے اور جو چلے گئے ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی یاد کو اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔ آئل ٹینکر کے الٹ جانے کے بعد پانی کی طرح بہتا پٹرول لوگوں کے دلوں میں لالچ کی طمع بڑھاتا گیا اور نالیوں کی صورت میں بہتا وہی پٹرول ان کی آخری خواہش ثابت ہوا۔ اس اندوہناک حادثے کا ذمے دار کون تھا۔ ٹینکر کا ڈرائیور، ٹینکر کا مالک، موٹروے کی پولیس یا اس ٹینکر کو بنانے والے افراد؟

اس سوال کا جواب دینا آسان بھی ہے اور مشکل بھی لیکن اس حادثے نے بہت سے ذمے داران کی جانب نشاندہی کردی ہے اور حکومتی اداروں نے ان آئل ٹینکروں اور ٹنکیاں بنانے والی ورکشاپس پر نظر رکھنا شروع کردی۔ ایک سروے کے مطابق اس طرح کی ورکشاپس جو شیخوپورہ، حافظ آباد اور ننکانہ اور بہاولپور میں قائم ہیں ایسے غیر معیاری آئل ٹینکرز تخلیق کر رہے ہیں جن کو سڑکوں پر حادثے کا شکار ہونے والی بسوں اور ٹرکوں کی باڈی کو مرمت کرکے ان پر نئی باڈی فٹ کردی جاتی ہے جس کا فریم مخدوش ہو، اس فریم پر نیا چیسز نمبر ٹمپرکردیا جاتا ہے۔

سرگودھا روڈ پر آئل ڈپوؤں کے قریب ایسی ورکشاپس کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں ایسا کام ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ شیخوپورہ کے قریب تھانہ صدر کی حدود میں چلنے والی ایسی گیارہ ورکشاپوں کے مطابق سروے کی رپورٹ بنا کر حکومت پنجاب اور حکومت ٹرانسپورٹ کو پیش کردی گئی ہے۔

حکومت کے مطابق آئل ٹینکرز اور ٹنکیوں میں استعمال ہونے والی چادر 12/10 کے بجائے 18/16/14 ایم ایم کی ہو اور اس چادر کو کیمیکل ویلڈنگ کے بجائے مقامی طریقے سے ویلڈ کیا جائے، جب کہ مذکورہ ورکشاپس میں ناقص انداز سے آئل ٹینکرز اور ٹنکیوں کو بنایا جارہا ہے جس سے دوران سفر یہ لیک کر جاتے ہیں، اس کے علاوہ ان آئل ٹینکرز کے اوپر ایک اور ناقص قسم کا فریم فٹ کردیا جاتا ہے جس سے آئل ٹینکرز اور ٹنکی کی اونچائی اور زیادہ ہوجاتی ہے اور کئی بار توازن نہ برقرار رکھتے ہوئے یہ پلٹ جاتے ہیں اور کئی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔

خواہشات کے ہجوم میں بھٹکتے بھٹکتے انسان حیوان بن رہے ہیں۔ ایک روپے کو ایک لاکھ اور ایک ہزار کو ایک کروڑ میں بدل دینے کی خواہش انسان کی اہمیت کو دن بہ دن کم کرتی جا رہی ہے۔ احمد پور شرقیہ کے واقعے نے جہاں لوگوں کے دل دہلا دیے وہیں حکومتی اداروں کی آنکھیں بھی کھول دی ہیں کہ سڑکوں پر چلتے ان شیطانی ٹینکرز کا کوئی تو پرسان حال ہو، جو ڈرائیورز سے لے کر اردگرد کے ماحول کے لیے موت کا پروانہ لیے سوار رہتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ عام ٹریفک میں ایسے آئل ٹینکرز کے سفر پر پابندی بھی عائد کی جائے جو نہ صرف سڑکوں پر ٹریفک میں خلل ڈالنے کا سبب بنتے ہیں بلکہ انسانی جانوں کے لیے خطرے کا باعث بھی ہیں۔

آئل ٹینکرز کے علاوہ ایسی بسوں، ویگنوں کی بھی خاص چیکنگ کی جائے جو موٹروے پر انسانی جانوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرتی ہیں اور اس طویل سفر میں ان کی پٹرول اور سی این جی گیس کے سلینڈرز اور ٹنکیاں بھی حکومتی میکنزم کے مطابق ہوں، اس سلسلے میں کرپشن کے اس مافیا کی روک تھام کی بھی ضرورت ہے جو چند کرارے نوٹوں کے چکر میں انسانی جانوں کے کارو بار کو بے ایمانی نہیں بلکہ اپنا کمیشن سمجھتے ہیں۔

حال ہی میں کراچی کھارادر میں سیر و تفریح کی غرض سے جانے والی ایک ویگن میں جس طرح ایک ہی گھر کے سات افراد لقمہ اجل بنے اس کا ذمے دار کون ہے؟ انسان کی معمولی سی لاپرواہی، غفلت، چند نوٹ اور حریصانہ خواہشات نجانے کتنے دلوں کا خون کر جاتے ہیں سڑکوں پر چلتے پھرتے ٹریفک کو محض تفریح یا کاروباری ضرورت ہی نہ سمجھا جائے بلکہ اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرکے رب العزت کی نظر میں شکرانہ نعمت بھی ادا کی جائے، خدا ہم سب کو توفیق دے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔