جمہوریت کی بقاء؛ مگر کیسے؟

ملک رمضان اسراء  جمعرات 26 اکتوبر 2017
جب تک ہم میں ذاتی مفادات کی ہوس باقی رہے گی تب تک نظام یوں ہی چلتا رہے گا اور ہم اسی طرح گھسٹتے رہیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب تک ہم میں ذاتی مفادات کی ہوس باقی رہے گی تب تک نظام یوں ہی چلتا رہے گا اور ہم اسی طرح گھسٹتے رہیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے پاکستان کو ایک ڈرامہ بنا دیا ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی نئی قسط نشر کی جاتی ہے۔ کوئی عوام کے نام پر لوٹتا ہے تو کوئی نام نہاد حب الوطنی پر مال بناتا ہے۔ کوئی اسلام کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے تو کوئی سیکولرازم اور لبرلزم کا چیمپئن کہلاتا ہے۔ لیکن کسی کو بھی یہ پرواہ نہیں کہ پاکستانی عوام کس حال میں ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ سچ لکھنا، کہنا اور بولنا تو دور، حتی کہ سوچنا بھی محال ہوچکا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی صحافی پر حملہ ہوجاتا ہے اور حال ہی میں تو ہمارے صحافی دوست شاہ نواز ترکزئی کو لاپتا کردیا گیا ہے۔ نجانے کب اس ڈرامہ بازی سے ہماری جان چھوٹے گی۔

یہ نعرہ لگایا جارہا ہے کہ کیس پاناما کا مگر نکالا اقامہ پر گیا۔ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے کہ پیشی شریف خاندان کی ہے لیکن پیش پیش حکومتی وزراء ہیں۔ کیا یہ بھی ملکی مفاد میں سمجھا جائے؟ دوسری طرف جناب عمران خان صاحب مخالف تو حکومت کے ہیں مگر گالم گلوچ، دھمکیاں افسران کو دیتے ہیں۔ کیا پاکستان میں خوشحالی ایسے میں ممکن ہے؟

اس بارے میں میرا جواب ہے کہ ہرگز نہیں، کیونکہ جب تک ہمارے اندر ذاتی مفادات کی ہوس باقی رہے گی تب تک نظام یوں ہی چلتا رہے گا اور اسی طرح گھسیٹے کھاتے رہیں گے۔ پہلے ہمارے سیاستدان مارشل لاء کی راہیں ہموار کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ دیکھو جی ہم پر بڑا ظلم ہوگیا۔ یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔ یقیناً آمریت کی بہت بڑی غلط کاریاں ہیں بلکہ اس کی اچھائیاں بھی برائیوں میں سمجھی جاتی ہیں لیکن عام آدمی جس کو سیاست اور ملک میں ہونے والی ڈرامہ بازی کا کچھ پتا نہیں، وہ بھی کہتا ہے کہ فوجی حکومت ان سیاستدانوں سے کئی گنا بہتر ہے۔ آخر وہ ایسا کیوں کہتا ہے؟

اس پر ہمارے اہل سیاست کو فکر کی بے حد ضرورت ہے۔ عام پاکستانی یہ بھی کہتا ہے کہ اگر پاکستان میں اچھی زندگی گزارنی ہے تو ایک بھائی فوج میں ہونا چاہیے تاکہ نام نہاد حب الوطنی کے نام پر اپنا رعب و دبدبا بنارہے، دوسرا بھائی صحافت میں ہو کیونکہ مخالفین کی عزت مٹی میں ملانے اور اپنی عزت بڑھانے میں کسی اور کی ضرورت ہی نہ پڑے، اور تیسرا بھائی سیاست میں بھی ہونا لازم ہے جو پاکستان کے کرپٹ نظام میں زیادہ سے زیادہ کرپشن کرکے دولت مند ی کے ذریعے پاکستان کا عظیم ترین خاندان بن جائے۔

اگر غربت اور عام آدمی ہونے کی وجہ سے ان تین عہدوں میں سے آپ کا کوئی اپنا کسی ایک پر بھی اپنی گرفت نہیں بنا پاتا تو پھر آپ ان عام پاکستانیوں میں شامل ہیں جن کا مقدر بن چکا ہے کہ وہ ہر روز کبھی اسپتالوں میں صحت کی تلاش میں تو کبھی عدالتوں کے سامنے انصاف کی خاطر دھکے کھاتے پھریں۔ کیونکہ پیارے پاکستان میں دو قانون ہیں، ایک عام جن میں ہم جیسے معمولی لوگ شامل ہیں اور دوسرا قانون خاص لوگوں کےلیے ہے جس میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں جن کا نام تو کیا میں ان کی طرف اشارے کی بھی گستاخی نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر خود کو حق گوئی کا چیمپئن کہلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وطن عزیز میں جج بکتے ہیں، صحافی بکتے ہیں، سیاستدان بکتے ہیں حتی کہ جرنیل بھی بک جاتے ہیں۔

اب آپ ہی بتایئے کہ پاکستان میں ایسا کونساعہدہ ہے جس پر فائز شخص نہ بکا ہو؟ اگر کوئی نہیں بکا تو وہ ہے باضمیر شخص جس نے چند کوڑیوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سود ا نہیں کیا۔ ہمارا میڈیا جو برائے نام آزادی اظہار اور نام نہاد حق گوئی کا چیمپئن بنا پھرتا ہے، وہ بھی سرکاری اشتہاروں پر بک کر کبھی سچ کو کچھ وقت کےلیے کسی کونے میں رکھ دیتا ہے تاکہ اگلا اشتہار لینے کےلیے اس سچ کودوبارہ استعمال کیا جائے۔ میری تمام تر باتوں کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان میں سارے لوگ ہی بدیانت ہیں۔ نہیں، ہرگز ایسا نہیں، کیونکہ جس طرح ہمارے ہاتھوں کی ساری انگلیاں ایک برابر نہیں اسی طرح میری پاک دھرتی میں بھی سبھی ایک جیسے نہیں۔

یہاں ایماندار پولیس افسر بھی ہیں اور بہادر فوجی بھی، حق پرست سیاستدان بھی ہیں اور حق گو صحافی بھی، انصاف و میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے والے جج بھی ہیں اور حقیقت کا ساتھ دینے والے عوام بھی۔ بس کچھ کمی ہے تو ہمیں ان جیسا بننے اور ان کی طرح پوری ایمانداری کے ساتھ آئین و قانون کے تحت کام کرنے کی تاکہ ہماری آئندہ نسلیں ہم پر ناز کرسکیں۔

حالیہ دنوں میں کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے سول ملٹری جنگ چھڑنے والی ہو۔ حالانکہ اصل مسئلہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کا ہے نہ کہ پوری قوم کا۔ لہذا حالات کی بہتری کےلیے نواز شریف صاحب کواب اپنی نااہلی قبول کرلینی چاہیے۔ یقیناً کچھ روز قبل احتساب عدالت کے سامنے رینجرز کے افسران نے وزیرداخلہ کے ساتھ جو کیا وہ نہ صرف قابل مذمت بلکہ قابل تشویش بھی ہے اور اس سے شریف خاندان کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے کیونکہ اس حرکت سے ان کے اس الزام کو تقویت ملی ہے کہ واقعی نواز شریف کے خلاف کہیں نہ کہیں سازش ہورہی ہے جو درحقیقت نہیں ہورہی۔

رینجرز کے اس عمل سے یہ پیغام بھی گیا ہے کہ بہ نسبت احسن اقبال کے چودھری نثار علی خان زیادہ طاقتور اور بااختیار وزیرداخلہ تھے۔ لیکن ماضی قریب میں جس طرح سازش سازش کا نعرہ لگایا گیا، کیا وہ درست تھا؟ کیا یہ الزام لگانے والے اپنے اس بیان پر شرمندہ ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا تاکہ اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کےلیے یا پھرسیاسی شہید بننے کےلیے دانستہ یا نادانستہ طور فوج کو مارشل لاء لگانے پر یوں ہی اکساتے رہے۔ حکومت میں ہوکر اپوزیشن سے بڑھ کر اپوزیشن والی حرکات سے اپنا ہی نقصان ہوگا۔ فوج کو بھی سیاسی معاملات پر میڈیا کے ذریعے بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرے مگر یوں بیان بازی والی ڈرامہ بازی کرکے کوئی بھی احتساب سے نہیں بھاگ سکتا۔

اس طرزِ عمل سے کوئی محب وطن بھی نہیں بن سکتا، بلکہ سول اور ملٹری قیات کو مل کر اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کا قلع قمع کرنا ہوگا، جو اچھی خاصی چلتی جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں اور مارشل لاء کی صدائیں بلند کرتی رہتی ہیں۔ شاید وہ وطن عزیز کے ساتھ دل سے مخلص نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے پیروکار ہیں۔

موجودہ آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ جمہوریت کے داعی ہیں جس کا اظہار وہ کئی بار کرچکے ہیں۔ موجودہ حکومت میں خاصی بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کی مخالف جماعتیں اس خوف کا شکار ہیں کہ کہیں 2018 میں بھی انہی کی حکومت نہ بن جائے اور وہ ایک بار پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ رہ جائیں۔ پاناما کیس کے تاریخ ساز فیصلہ کا کریڈٹ عمران خان لے اڑے جس کی بدولت تحریک انصاف خود کو پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت اور حقیقی حزب اختلاف کہلانے میں حق بجانب رہی لیکن خیبر پختونخوا حکومت کی بدترین کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ میں غلیظ ترین حکمرانی بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ لہذا ساری سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے استحکام کےلیے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا اور جمہوریت کی بقاء کےلیے پارٹی پالیسیاں بدل کر عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی پالیسیاں بنانی پڑیں گی جس میں پاکستانی عوام کا مفاد اولین ترجیح ہوگا۔ اور جب ہمارے سیاستدانوں خود کو عوام کی نظروں میں بہترین حکمران ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس دن جمہوریت کے خلاف سازش کرنے والوں کے خلاف یہی پاکستانی عوام سیاستدانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر وہ حشرکریں گے کہ ساری دنیا ترکی میں جمہوریت دشمنوں کے خلاف ہونے والی مزاحمت بھول جائے گی؛ بشرطیکہ واقعی کوئی ایسی سازش ہوئی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء

مصنف صحافی و قلم کار ہیں۔ ان سے ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام آئی ڈی malikramzanisra اور ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔