ناموس رسالت کے محاذ پر بیدار قوم

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 22 اپريل 2021
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

آج ایک بار پھر حقیقی ریاست مدینہ کا تصور بار بار آرہا ہے اور قلب و ذہن کو معطر کررہا ہے۔ ریاست مدینہ نے اپنے شہریوں کی جس تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا تھا وہ رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے، جنھیں اپنا کر دنیا و آخرت کو درخشانی عطا کی جاسکتی ہے اور جو کوئی اس تعلیم و تربیت سے منہ موڑے گا وہ خوار ہوجائے گا اوررسوائی اس کا مقدر بن جائے گی۔

آئیے اب آتے ہیں مملکت خداداد پاکستان کی جانب جسے موجودہ حکمران ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار ہیں، تین سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن ان کے کسی ایک عمل سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی جانب لے کر بڑھ رہے ہیں، ان تین برسوں کے دوران حکمرانوں نے ہر وہ کام کیا ہے جس کی نفی حقیقی ریاست مدینہ کرتی ہے۔ بہت سی باتوں کا ذکر ہم نے کئی کالموں میں کیا لیکن آج پاکستان میں جاری اس انتشار کا ذکر کریں گے جو نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کی نااہلی اور نالائقی سے پیدا ہوا۔

میری مراد تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی ہے۔ فرانس میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع ہوئے جس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے، فرانسیسی صدر کی جانب سے ذمے داروں کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے اس عمل کی حمایت کا اعلان کردیا گیا جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت اقدام تھا۔ اس پر تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد میں ناموس رسالت مارچ کا اہتمام کیا گیا جو فیض آباد پہنچ کر دھرنے کی شکل اختیار کرگیا۔ دھرنا ختم کرانے کے لیے حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے بعد17نومبر کو دھرنا ختم کردیا گیا۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان نے باہمی مشاورت سے مندرجہ ذیل چار نکات پر اتفاق رائے کیا۔

1) حکومت فرانس کے سفیر کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے فیصلہ سازی کے ذریعے ملک بدر کرے گی۔2) حکومت پاکستان، فرانس میں اپنا سفیر تعینات نہیں کرے گی۔3) فرانس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا۔ 4)تمام گرفتار افراد کو رہا کیا جائے گا اور اس حوالے سے بعد میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔

وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے جو اعلامیہ جاری جاری کیا گیا تھا، اس کے مطابق ’’حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد دھرنا ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی گئی ہے۔‘‘ مذاکرات کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے کمیٹی قائم کی تھی جس کی سربراہی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کر رہے تھے جب کہ دیگر حکومتی اراکین میں اس وقت کے وزیر داخلہ سید اعجاز شاہ ، کمشنر اسلام آباد، مشیر داخلہ شہزاد اکبر اور سیکریٹری داخلہ شامل تھے۔

16فروری کو تین ماہ مکمل ہونے پر اس معاہدے کی مدت ختم ہونے جارہی تھی کہ حکومت نے گیارہ جنوری کو ہی کالعدم ٹی ایل پی کی قیادت سے رابطہ کرکے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بیس اپریل تک کا وقت مانگ لیا۔ پھر مدت پوری ہونے سے کم و بیش ایک ہفتہ قبل ہی حکومت نے لاہور سے علامہ سعد رضوی کو گرفتار کرلیا۔ یہ عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ پورے ملک میں انتشار کا باعث بن گیا، مظاہرین میں صرف تحریک لبیک کے کارکن نہیں تھے بلکہ ہر جماعت، ہر مسلک اور ہر طبقے کی نمائندگی موجود تھی۔

حکومت کی جانب سے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی طاقت کے استعمال کی صورت میں کی گئی، یوں حالات مزید خراب ہوگئے۔ اس دوران حکومت بضد رہی کہ ٹی ایل پی سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرکے اس کی قیادت پر مقدمات قائم کیے گئے اس اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

بعدازاں دینی و سیاسی قیادت سامنے آئی اور نامور عالم دین مفتی منیب الرحمان نے ملک بھر میں پیر کے روز ہڑتال کی کال دے دی۔ قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے اراکین نے کھل کر حکومت کی پالیسی پر تنقید کی۔ مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں جس طرح کھل کر سامنے آئیں‘ تب حالات کی اس سنگینی کو بھانپتے ہوئے حکومت مذاکرات پر مجبور ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی قوم سے خطاب کیا۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جو کچھ ہوااس پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے لیکن اس کی زیادہ ذمے دار حکومت ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ حکومت میں شامل شخصیات میں نازک اور بحرانی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وزارت داخلہ اپنا حقیقی کردار ادا کرتی نظر نہیں آئی ۔ وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب میڈیا ٹاک میں یہ تو بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں‘ لیکن جو بحران سامنے تھا‘ اصل کام اس سے خوش اسلوبی سے سرخرو ہونا تھا۔ وہ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی جانب لے جاسکتے تھے، پھر ان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم ان کی ہربات مانتے ہیں۔

ایک ہفتے کی اس کشمکش سے جہاں دل دکھی ہے وہاں ایک اطمینان کا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ناموس رسالت کے محاذ پر میری قوم اور تمام سیاسی و دینی جماعتیں بیدار ہیں۔ میرے نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ہوش کے ناخن لیں، کوئی مسلمان ایسی ناپاک جسارت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ حکومت گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کیے گئے اپنے اقدامات پرنظرثانی کرے، قوم معیشت کے اتار چڑھاؤ اور الفاظ کے گورکھ دھندے کو نہیں جانتی، ہمارے لیے ہر شے سے عزیز حرمت رسول ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔