اسمگلر کے دریائی گھوڑے

غزالہ عامر  جمعرات 20 دسمبر 2018
دریائی گھوڑوں کا یہ غول اب قرب و جوار میں رہنے والے کسانوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔    فوٹو : فائل

دریائی گھوڑوں کا یہ غول اب قرب و جوار میں رہنے والے کسانوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ فوٹو : فائل

پیبلو ایسکوبار اپنے دور میں منشیات کی اسمگلنگ کا بے تاج بادشاہ تھا۔

منشیات کی اسمگلنگ کی عالمی مارکیٹ پر اس کی اجارہ داری 80ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر1993ء میں اس کی موت تک برقرار رہی تھی۔ پیبلو کے عروج کے زمانے میں اس کی تنظیم کی روزانہ آمدنی چھے کروڑ ڈالر تھی۔ فوربس میگزین کے مطابق 1989ء میں پیبلو کے اثاثوں کی مالیت تین ارب ڈالر تھی۔ اس طرح اس کا شمار تاریخ کے چند دولت مند ترین مجرموں میں ہوتا ہے۔ پیبلو کا تعلق کولممبا سے تھا۔ منشیات کی اسمگلنگ کے لیے اس کے پاس کئی ذاتی طیارے اور ہیلی کوپٹر موجود تھے۔

کولمبیا کے شہر بوگوٹا سے دو سو میل شمال میں پیبلو کی جاگیر تقریباً آٹھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس جاگیر میں پیبلو نے اپنی رہائش کے لیے ایک شان دار محل تعمیر کروایا تھا۔ پیبلو کو نادر و نایاب چرند پرند اکٹھے کرنے کا شوق تھا۔ اس نے اپنی جاگیر میں بہت بڑا چڑیا گھر بنارکھا تھا جس میں ہاتھی اور زرافے سے لے کر دریائی گھوڑے تک سبھی جانور موجود تھے۔ کولمبیا میں اس زمانے میں دریائی گھوڑے نہیں پائے جاتے تھے۔پیبلو نے اپنے شوق کی تسکین کے لیے دریائی گھوڑے امریکی ریاست نیوآرلینز سے منگوائے تھے۔ اس وقت ان کی تعداد چار تھی جو بڑھتے بڑھتے اب چالیس تک پہنچ گئی ہے۔

1993ء میں پیبلو نے ترکے میں وسیع و عریض جاگیر کے علاوہ ہزاروں جانور بھی چھوڑے تھے۔ پیبلو کی ملکیتی زمین کو حکومت نے کسانوں میں تقسیم کردیا تھا، اور جانور مختلف ممالک کے چڑیا گھروں کو عطیہ کردیے گئے تھے۔ مگر چار وسیع و عریض جھیلوں میں رہنے والے دریائی گھوڑوں کو اسی طرح رہنے دیا گیا تھا۔

دریائی گھوڑوں کا یہ غول اب قرب و جوار میں رہنے والے کسانوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ یہ جانور محکمہ وائلڈ لائف کے لیے بھی دردسر بن گئے ہیں جو ان کا کوئی حل نکالنے سے قاصر ہے۔ یہ جانور جھیلوں سے باہر نکل کر اطراف کے علاقے میں دندناتے رہتے ہیں ۔ یہ نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ کسانوںکے کئی مویشیوں کو بھی ہلاک کرچکے ہیں۔

دریائی گھوڑوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے اب انھیں یہاں سے کہیں اور منتقل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس کی ایک وجہ ان کا انتہائی وزنی ہونا بھی ہے۔ وائلڈ لائف کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ایک چڑیا گھر میں ایک سے زیادہ دریائی گھوڑے نہیں رکھے جاسکتے۔ دوسری جانب حکومت نے ابھی تک مقامی آبادی کو ان جانوروں کی تباہ کاری سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔