(میڈیا واچ ڈاگ) – لڑکے روتے نہیں!

حاجرہ افتخار  جمعـء 14 نومبر 2014
 تمہیں لڑکیوں کی طرح رونا نہیں چاہئے، مرد بنو مرد اور اگر اسی طرح رونا ہے تو گھر جاکر بیٹھ جاؤ چوڑیاں پہن لو. فوٹو رائٹرز

تمہیں لڑکیوں کی طرح رونا نہیں چاہئے، مرد بنو مرد اور اگر اسی طرح رونا ہے تو گھر جاکر بیٹھ جاؤ چوڑیاں پہن لو. فوٹو رائٹرز

فیمینزم بھی بڑا عجیب نظریہ ہے ۔ اگر آپ خواتین کے حقوق اور ان کی عزت و وقار کی سلامتی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ دنیا کے تمام مردوں کو ایک ہی ترازو میں تولنا شروع کریں۔ دنیا میں فساد کے لئے صرف مرد ذمہ دار ہے لہٰذا مردوں کو ہر غلط بات کا ذمہ دو اور انہیں زمانے سے نکال باہر کردو ، لیکن کیا واقعی یہ بات سچ ہے؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے پہلے ہمیں اپنے معاشرے کی عادات و رسومات پرغورکرنا ہوگا جہاں ہم ہر روز مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ تم بہتر ہو ، تم کچھ بھی کرسکتے ہو، تمہیں لڑکیوں کی طرح رونا نہیں چاہئے، مرد بنو مرد اور اگر اسی طرح رونا ہے تو گھر جاکر بیٹھ جاؤ چوڑیاں پہن لو بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس سے تو بہتر تھا کہ خدا مجھے بیٹی دے دیتا۔ اس قسم کی نجانے کتنی ہی باتیں جو بچپن سے ہی لڑکوں کو سکھائی جاتی ہیں اور معاشرے کی اسی تربیت کو غلط رو میں جانے سے روکنے کے لئے فیمینسٹ جنم لیتے ہیں۔

دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت میں فیمینزم کی تحریک کو زیادہ ہوا دی جاتی ہے شاید اس کی وجہ ان ممالک میں خواتین کے ساتھ آئے روز بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے واقعات ہیں۔ یہ دونوں ممالک الگ ہوکر بھی بہت سی باتوں میں آج بھی ایک دوسرے سے خاصی مماثلت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں بھارتی میڈیا پر ایک پبلک سروس میسج میں یہ دکھایا گیا کہ کیسے ہم لڑکے کو پیدا ہوتے ہی سکھاتے ہیں کہ وہ لڑکا ہے اور اسے رونا نہیں چاہیے، کیوں کہ لڑکے تو روتے نہیں ہیں، یہاں تک کہ ایک دن جوان ہو کر وہ لڑکا لڑکی پر ہاتھ اٹھاتا ہے، بری طرح اسے اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے اور لڑکی روتی رہ جاتی ہے۔ اس مختصر کہانی کے اختتام پر یہ بتایا جاتا ہے کاش ہم یہ نا سکھاتے کہ لڑکے روتے نہیں ہیں بلکہ یہ سکھاتے کہ لڑکے رلاتے نہیں ہیں۔


 بات تو سچ ہے! اور ہمیں سوچنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ ہم ہی ہیں جو بچوں کے پیدا ہونے سے پہلے ہی تفریق شروع کر دیتے ہیں لڑکا ہوا تو بلو کلر اور اگر لڑکی ہوئی تو پنک کلر۔ بچے تو نہیں کہتے ہمیں یہ رنگ پہنانا ہے ۔ یہ تو ہم ہیں جو سکھاتے ہیں کہ تم تو بے غیرت ہو گئے ہو ، گولی مار دو اسے، بیوی کی کیا حیثیت ہے یہ تو دوسری بھی مل جائے گی وغیرہ وغیرہ ۔

نیز یہ کہ ہر چیز میں فرق ہم خود کرتے ہیں ۔ سچ ہے کہ مرد اور عورت ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہیں جو کبھی ایک دوسرے کے برابر نہیں آسکتے ، جہاں کبھی ایک تو کبھی دوسرا برتری لے جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ عورت بھی انسان ہے اس کے سینے میں بھی اﷲ نے دل بنایا ہے ، یہ کوئی پنچنگ بیگ نہیں ہے، اسے بھی برابر کی تکلیف ہوتی ہے یا شاید اس سے زیادہ، تو ہمارا معاشرہ بہت سی برائیوں سے بچ جائے گا۔ پھر ہمیں معاشرے میں کسی فیمینسٹ کی ضرورت پڑے گی، کیونکہ جب ظلم کم ہو گا تو اس کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی کم ہوں گے۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی کہ ہم لڑکوں کو کیا سکھاتے ہیں بلکہ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہم لڑکیوں کو کیا سکھاتے ہیں؟ جہاں لڑکوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مرد ہے اور اس لئے وہ ہر لحاظ سے برتر ہے وہیں لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اچھی بیٹی ہونے کے ناطے وہ باپ کے آگے اپنے آواز نہیں نکالیں گی، ماں باپ کی ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھیں گی، بھائی کی بات مانیں گی، ساس سسر کی عزت کریں گی، ان کی بات کو اپنے ماں باپ کی بات مان کر اس پر عمل کریں گی، اور شوہر تو اس کا مجازی خدا ہے اس کی کسی بات سے اتفاق نہ کرنا تو گناہ ہے۔ ان ہی باتوں کہ وجہ سے آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں جہیز نہ ملنے پر لڑکی کو ذلیل کیا جاتا ہے، ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، آگ لگادی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

زیادتی ہر چیز کی بری ہے اور اسی زیادتی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ مانا کہ بہت سا وقت گزر چکا ہے لیکن اگر آج بھی ہم اپنی نئی نسل کی صحیح تربیت کرتے ہوئے انہیں ایک نئے  زاویئے سے دیکھنا اور سوچنا سیکھائیں تو یقینناَ اس معاشرے سے ظلم و ستم کے خاتمے کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہمیں صرف اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

​ نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

حاجرہ افتخار

حاجرہ افتخار

بی ایس ماس کمیونیکیشن کی طالبِ علم ہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور ریسرچ کرنا ان کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔