(پاکستان ایک نظر میں) - اس مہلک بیماری کو پھیلنے سے روکنا آسان نہیں

نور پامیری  بدھ 3 دسمبر 2014
 اندیشہ یہ ہے کہ اگر ایک متاثرہ شخص بھی کسی طرح  پاکستان میں داخل ہو کر  آبادی میں گھل مل گیا تو یہ مرض بے قابو ہو سکتا ہے۔

اندیشہ یہ ہے کہ اگر ایک متاثرہ شخص بھی کسی طرح پاکستان میں داخل ہو کر آبادی میں گھل مل گیا تو یہ مرض بے قابو ہو سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پرایک تصویر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تصویر افریقہ کے کسی ملک کی تھی جس میں ایک سیاہ فام خاتون زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی مٹی کا ڈھیلا اُٹھا کر ایک اسٹریچر کی طرف کرب کی حالت میں پھینک رہی تھی۔ اسٹریچر کو  سر سے پاوں تک سفید پلاسٹ کے لباس میں ڈھکے چار افراد اُٹھا کر کسی طرف لے جارہے تھے۔ اسٹریچر کے اوپر نارنجی رنگ کے مکمل طور پر بند پلاسٹک کے تھیلے میں لپٹا ایک جسد خاکی پڑا تھا۔

تفصیلات پڑھنے پر معلوم ہوا کہ اسٹریچر پر موجود شخص ایبولا نامی مرض کی وجہ سے ہلاک ہوا تھا ۔اُسے اٹھا کر لے جانے والے افراد عالمی سطح پر  صحت کے لئے کام کرنے والے ادارے ایم ایس ایف (میڈیسنز سانز فرنٹیئر) کے کارندے تھے، جبکہ کرب کی حالت میں مٹی کا ڈھیلا اُٹھا نے والی خاتون مرحوم کی عزیز تھی۔ خاتون اور دیگر تمام رشتہ داروں  اور دوستوں  کو قبر تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ایبولا کے مریضوں کے جسموں سے نکلنے والی رطوبتوں کے ذریعے ایبولا نامی وائرس دوسروں تک منتقل ہوسکتا ہے۔ اسی لئے موت کا شکار ہونے والے مریضوں کو پلاسٹک کے مکمل طور پر بند تھیلوں میں ڈال کر دفنا دیا جاتا ہے۔

ایبولا وائرس اور اس کی وجہ سے پھیلنے والی موذی بیماری نے پوری دنیا کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک نے مغربی افریقہ کے متاثرہ ممالک سے آنے والے افراد پر عارضی پابندیاں عائد کردی ہیں، جبکہ تقریبا تمام ممالک کے ایئرپورٹس اور دیگر داخلی راستوں پر  مریضوں کی جانچ بھی کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اب تک قومی میڈیا کے ذریعے مبینہ طور پر ایبولا سے متاثر ہونے والے تین  مریضوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلے چنیوٹ (پنجاب ) ‏ سے تعلق رکھنے والے شخص کو ایبولا میں مبتلا ہونے کی  شک پر  اسپتال داخل کر دیا گیا، بعد میں ثابت ہوا کہ انہیں یرقان کی شکایت تھی اور ساتھ میں وہ ڈینگی نامی بیماری کا مریض بھی تھا۔ دوسرا مشتبہ کیس  دو دن پہلے  کراچی میں سامنے آیا، بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ انہیں ایبولا نہیں بلکہ دیگر وجوہات کی بنا پر سخت بخار ہوا تھا۔ ایبولا کے تیسرے مشتبہ مریض کی خبر اسلام آباد میں سامنے آئی، تاہم آج صبح معالجین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ بھی ایبولا کے مرض کا شکار نہیں ہے. ان تین مریضوں میں قدر مشترک بات یہ تھی کہ تینوں افریقہ کے مختلف ممالک سے وطن واپس آئے تھے اور انہیں بخار ہوا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ ان خبروں کے سامنے آنے سے  ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ایبولا کے ہر مشتبہ مریض کی خبر ملک میں بے چینی اور خوف کی ایک نئی لہر پیدا کر دیتی ہے، کیونکہ عالمی ذرائع ابلاغ کی بدولت لوگ جانتے ہیں کہ اس مہلک بیماری کو پھیلنے سے روکنا اور اس کا علاج کرنا آسان نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں صحت عامہ کا نظام ویسے بھی ہماری بہت ساری بنیادی  ضروریات کو  پورا نہیں کر رہا ہے، اس لئے اگر واقعتا وطن عزیز میں ایبولا پھیل جائے تو نہ جانے کیا صورتحال ہوگی۔

غرض یہ کہ اقوام عالم اور تمام عالمی ادارے ایبولا کی وجہ سے پریشان ہیں۔ افریقہ سے میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچنے والی دلخراش تصویروں ، خبروں اور تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر خوف کی کیفیت بیجا نہیں ہے۔ تاہم میڈیسنز سانسز فرنٹیئر  نامی تنظیم کے مطابق عالمی سطح پر ایبولا سے نمٹنے کے لیے مناسب  اور موثر اقدامات نہیں اٹھا ئے جا رہے ہیں۔ آج شائع ہونے والے ایک بیان میں عالمی طبی ادارے نے  اقوام عالم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا  ہے کہ تربیت یافتہ افراد کی کمی کی وجہ سے ہزاروں زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے. یاد رہے کہ ایم ایس ایف کے تقریبا 3500 (تین ہزار پانچ سو) مقامی اور بین الاقوامی ماہرین ایبولا سے متاثرہ مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں. ایم ایس ایف کے مطابق مارچ سے لے کر اب تک انہوں نے  ایبولا سے متاثرہ  3800 افراد کا علاج کیا ہے، جن  میں سے صرف  1600  کے لگ بھگ افراد کی زندگیاں بچائی جاسکی۔ ان اعداد و شمار سے ایبولا کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.

فوٹو؛ نور پامیری/ ایم ایس ایف

محققین کا ماننا ہے کہ ایبولا وائرس قدرتی طور پر پھلدار درختوں میں رہنے والے چمگادڑ کی کچھ اقسام میں پرورش پاسکتا ہے۔ جانوروں سے یہ وائرس جسمانی رطوبتوں اور فضلہ جات کے ذریعے انسانوں میں  منتقل ہوجاتاہے۔ افریقہ کے بعض ممالک میں چمگادڑوں کا شکار کیا جاتا ہے اور انہیں بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتاہے۔ غالبا اسی طرح یہ مہلک وائرس چمگارڈوں سے انسانوں تک منتقل ہوگیا۔‏ یاد رکھیں کہ ایبولا وائرس ہوا کے زریعے متاثرہ شخص سے  دوسروں تک منتقل نہیں ہوسکتا۔  وائرس کا دوسروں تک انتقال صرف جسمانی رطوبتوں اور فضلہ جات کے زریعے ممکن ہے۔ اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ متاثرہ شخص کے پسینے، خون یا پاخانہ وغیرہ سے دور رہا جائے۔

فوٹو؛ نور پامیری/ ایم ایس ایف

ایبولا وائرس اتنا خوفناک اور مہلک ہے کہ اس کے شکار افراد کودوسرے انسانوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ متاثرہ افراد کو علاج اور معالجے کی خدمات فراہم کرنے والے افراد متعدد دبیز تہوں پر مشتمل خصوصی لباس پہنتے ہیں۔ نیز یہ کہ معالجین جب مریضوں سے مل کر آتے ہیں تو ان کو بھی تین ہفتوں تک زیر نگرانی رکھا جاتا ہے، تاکہ یہ معلوم کیاجاسکے کہ معالج خود وائرس کا شکار تو نہیں ہوا ہے؟ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی بڑی تعداد میں نرس اور ڈاکٹر ایبولا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس غیر معمولی احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ اس خطرناک ترین موذی مرض نے امسال مارچ سے اب تک 6  ہزار سے زائد افراد کی جان لی ہے، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں  دیگر  افراد مختلف ممالک میں زیر علاج ہیں۔ اندیشے کی بات یہ ہے کہ اب تک سائنسدان اور محققین اس خطرناک مرض کے لئے کوئی مروجہ علاج تجویز نہیں کر پائے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، طبیبان کو متاثرہ مریضوں میں مرض کی تشخیص میں بھی مشکلا ت کا سامنا ہے، کیونکہ ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد میں بیماری کی علامات تقریبا 21 دنوں ، یعنی تین ہفتوں، تک نمودار نہیں ہوپاتی ہیں۔

اللہ کرے کہ ہمارے  ملک کا کوئی بھی شخص اس موذی مرض کا شکار نہ ہو۔  ابھی تک منظر عام پر  آنے والے تینوں مشتبہ مریضوں میں ایبولا وائرس نہیں پایا گیا ہے۔ تاہم  اس سلسلے میں مسلسل نگرانی  کی سخت ضرورت ہے ، کیونکہ بڑی تعداد میں پاکستانی شہری  مغربی افریقہ کے متاثرہ ممالک  میں روزگار یا پھر کسی اور وجہ سے موجود ہیں۔  اندیشہ یہ ہے کہ اگر ایک متاثرہ شخص بھی کسی طرح  پاکستان میں داخل ہو کر  آبادی میں گھل مل گیا تو یہ مرض بے قابو ہو سکتا ہے۔  ویسے بھی ہمارے ملک میں صحت کا نظام قابل رشک نہیں ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔