عام پاکستانی عورت اور پارلیمنٹ میں براجمان شہزادیاں

ستم ظریفی ہے کہ پارلیمنٹ میں عام عورتوں کی نمائندہ ’شاہی شہزادیاں‘ ان عورتوں کے مسائل ہی سے ناآشنا ہیں


سعدی بٹ September 19, 2018
ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی ’’شاہی شہزادیاں‘‘ پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندہ بن کر سرکاری مراعات کے صرف مزے لوٹنا جانتی ہیں مگر ان مسائل سے نا آشنا ہیں جو ایک عام پاکستانی عورت کو درپیش ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کچھ لوگ ہمیں زندگی کے سفر میں بہت ہی کم وقت کےلیے ملتے ہیں مگر ان کی مثبت سوچ اور شخصیت، ذہن پر ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں جن کی بناء پر ہم انہیں بھول نہیں پاتے انہیں درپیش آلام و مصائب میں دیکھ کر ہماری روح بے چین ہوجاتی ہے۔ شاید ہم ان کے ساتھ ہونی والی زیادتی کے خلاف ان کا ساتھ نہیں دیتے یا ان کی مدد کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔

چند سال قبل پنڈی میں والدہ کی دوست کے گھر دو روز قیام کیا۔ وہاں ان کی سب سے بڑی بیٹی نائلہ سے میری دوستی ہوگئی۔ وہ عمر میں مجھ چھوٹی تھی مگر اس میں موجود صفات کو دیکھ کر مجھے اپنا آپ چھوٹا معلوم ہونے لگا۔ نائلہ اپنی والدہ کی طرح سلیقہ مند، محنتی اور سادہ شخصیت کی مالک تھی مگر وہ معصوم لڑکی ماں سے کہی زیادہ حساس تھی۔ وہ آج کل کی لڑکیوں جیسی نہ تھی۔ والد کے کہنے پر میٹرک کے بعد صرف دینی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ وہ خوددار لڑکی صاحب حیثیت والد کے ہوتے ہوئے بھی اپنا ذاتی خرچ سلائی کڑھائی کرکے پورا کیا کرتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے جہیز کی بھی کچھ چیزیں اپنی کمائی سے جمع کررہی ہے تاکہ وہ جہیز کے اخراجات میں کچھ اپنا حصہ ڈال سکے۔

اپنے بنگلے کی آرائش میں بھی وہ پیش پیش تھی۔ والد کا چھوٹا سا ذاتی کارخانہ تھا جس کے ملازمین کا کھانا ہفتے میں تین روز گھر سے جاتا تھا جبکہ کھانے کی تیاری بھی نائلہ، اس کی والدہ اور بہن مل کر کیا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ماجدہ خالہ کے گھر دوسرے دن میں اور نائلہ، سورج غروب ہوتا دیکھ رہی تھیں۔ سردیوں کی آمد آمد تھی، سرد ہواچل رہی تھی، ہم دونوں چائے کا کپ تھامے، چھت پر گھر کی پچھلی طرف باہر کی جانب دیکھ رہی تھیں جہاں ایک کنواں تھا جس کا خوبصورت وجود مجھے شہری آبادی کے بیچ خاصا عجیب معلوم ہوا کیونکہ اس علاقہ میں تمام سہولیات موجود تھی۔ کنواں پانی سے بھراہوا تھا، میری نگاہ کا مرکز کنواں تھا جبکہ بات چیت کا مرکز روزمرہ مصروفیات اور آنے والا کل تھا۔

نائلہ نے مجھ سے میرے مستقبل کا ارادہ پوچھا تو میں نے مزید پڑھائی جاری رکھنے کا کہا۔ اس پر وہ کچھ سوچ کر کہنے لگی، ''سعدیہ باجی، پتا ہے ہمارے خاندان میں جلد بیٹیوں کو روانہ کر دیا جاتاہے۔'' میں نے شریر انداز میں کہا، ''ارے خالہ کو بھی یہ جملہ بار بار سنا پڑتا ہوگا کہ ارے بہن! بیٹیاں گھر بٹھانے کی چیز نہیں، جلدی سے ہاتھ پیلے کردو!'' نائلہ یہ سن کر میرے ساتھ قہقہہ لگا کر کچھ دیر تک ہنستی رہی اور پھر اچانک متفکر ہو کر اپنے مخصوص نرم لہجے میں پست آواز سے کہنے لگی، ''کہیں جلدبازی میں ابا کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔''

میں نے اس جلد بازی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کے والد کے بہن اور بھائی بھی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ''تم جیسی بے مثال لڑکی کے ساتھ کون کچھ غلط کرسکتا ہے؟ فکر نہ کرو، انکل بہت سمجھدار ہیں؛ کسی ایسے ویسے سے تو اپنی اتنی پیاری بیٹی نہیں بیاہ دیں گے۔''

کراچی لوٹنے کے بعد نائلہ سے رابطہ دو ماہ تک مستقل قائم رہا، وہ مجھ سے کبھی کبھار ایس ایم ایس پر حال احوال پوچھ لیا کرتی تھی۔ کچھ عرصے بعد نائلہ کے ہاتھ پیلے کردیئے گئے۔ اس کے والد نے (جو خاصے مذہبی تھے) اپنے کسی دوست کے کہنے پر ایک مذہبی گھرانے میں نائلہ کی شادی کردی۔ شادی کے بعد میرا نائلہ سے کوئی رابطہ نہ رہا اور شادی کے دو ماہ بعد نائلہ کو اس کے خاوند نے گھر سے بے بنیاد الزام لگا کر نکال دیا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ بے حد زبان دراز اور گھریلو ذمہ داریوں سے جان چھڑانے والی لڑکی ہے، سسرال والوں سے اس کا سلوک اچھا نہیں، وغیرہ۔

پھر چند ماہ بعد ہمیں خبر ملی کہ نائلہ اس دنیا میں نہیں رہی۔ اس خبر کو سننے کے بعد فوری رابطہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس حساس لڑکی نے شوہر کے رویّے اور سسرال والوں کی زیادتی کا اس قدر صدمہ لے لیا کہ وہ اس غم میں گھل گئی، خاموش رہنے لگی، اور دیوانوں سی باتیں کرنے لگی؛ یہاں تک کہ کھانا پینا تک چھوڑ دیا۔ پھر ایک صبح نماز فجر کی ادائیگی کرنے وہ نہ اٹھی تو اس طرح سب گھر کو اس کی موت کی خبر ہوئی۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا خاوند دراصل کسی دوسری عورت کے عشق میں مبتلا تھا اس لیے اس نے بغیر کسی وجہ کے نائلہ کو گھر سے نکالا اور طلاق کی دھمکی دے کر سچ اگلنے سے روکے رکھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لڑکے کے والدین کو نائلہ کے والد کی جانب سے زیادہ مالی فائدے کی امید نظر نہ آئی تو انہوں نے بھی اپنے بیٹے کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کےلیے اس کا ساتھ دیا۔ معصوم نائلہ، جسے اس کے شوہر نے طلاق کی دھمکی دے کر خاموش کر رکھا تھا، آخری وقت میں والدین کو سچ بتانے کے بعد، خاوند کی دوسری شادی کرنے کے فیصلے پر بھی رضامند تھی۔ اس کی پوری کائنات اس کا گھر اور شوہر تھے۔ شاید اس لیے وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئی تھی۔

نائلہ کی موت کے فوراً بعد اس کے شوہر نے شادی رچا لی جس سے اس کے کردار اور جھوٹ کا پردہ چاک ہوگیا۔ نائلہ کے والدین جو بات چیت کے ذریعے بیٹی کا گھر بسانا چاہتے تھے، کورٹ کچہری میں جانے کے بجائے معاملے کو رب کے سپرد کر بیٹھے، کیونکہ وہ نائلہ کے والدین تھے۔ نہ ہی ان کی بیٹی نے طلاق کی بدنامی کے ڈر سے کسی کے سامنے منہ کھولا اور نہ ہی والدین نے مری ہوئی بیٹی کا معاملہ کورٹ کچہری میں لے جانے کا سوچا۔ انہوں نے عدالت میں جانا اپنے خاندانی وقار کے خلاف سمجھا۔

نائلہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں سوچ کر کبھی مجھے اپنی اس خودغرضی پر غصہ آتاہے کہ میں اس پرخلوص لڑکی سے مستقل رابطہ (اپنی مصروفیات کی بناء پر ہی سہی لیکن) کیوں نہ رکھ سکی؛ اور کبھی اس بات پر کہ اس کو موت کی نیند سلانے والے تمام کردار ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان جیسے لوگوں کی گرفت صرف کاتبِ تقدیر ہی رسّی ڈھیلی چھوڑنے کے بعد اچانک سے زندگی کے کسی نازک موڑ پر مکافاتِ عمل یا قدرت کے بے مثال طریقوں سے کھینچتا ہے؛ اور بیشک آخرت میں تو سب ہی کوجوابدہ ہونا ہے۔

بس ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ملک کی ''شاہی شہزادیاں'' پارلیمنٹ میں ہم عورتوں کی نمائندہ بن کر سرکاری مراعات اور سہولیات کے صرف مزے لوٹنا جانتی ہیں مگر وہ ان مسائل سے ناآشنا ہیں جو ہمیں درپیش ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کی عورتوں کی پریشانیاں وہ کیسے سمجھ سکتی ہیں جن کی سیاست میں موجودگی باپ، بھائی اور شوہر کی بدولت ہے؟ اگر یہ ''شاہی شہزادیاں'' گھر سے فرار ہوکر شادی رچالیں، ان کے معاشقوں سے پوری دنیا واقف ہو یا آخری عمر میں طلاق لے کر دوسری شادی کرلیں تو یہ ''پاک بیبیاں'' ہی رہتی ہیں؛ کچھ عرصے میں ہماری لیڈر بن جاتی ہیں کیونکہ ان کی دولت اور طاقت سب عیب چھپا دیتی ہیں کیونکہ یہ بڑے بڑوں کے منہ بند کرنے کے لیے کافی ہیں۔

یہ سب معاشرتی اقتدار، حدود اور مذہبی اصول غریب اور متوسط طبقے کی عورتوں کےلیے ہیں۔ اگر وہ ان کی خلاف ورزی کریں تو باغی، اور اگر شہزادیاں کریں تو لبرل یا آزاد خیالات کی مالک کہلاتی ہیں۔ اگر عام لڑکی کوئی معاشرتی حد عبور کرے اور اس کی سزا بھگتے تو بالکل ٹھیک، اور اگر شہزادیاں ملکی دولت ہڑپ کرنے کی سزا بھگتیں تو وہ جیل کے ریسٹ ہاؤس سے بہت ہی بڑی لیڈر بن کر نکلتی ہیں اور بعد ازاں بی بی اور محترمہ کے نعروں کی گونج پوری دنیا میں زیادہ تیز آواز میں سنائی جاتی ہے۔ اس سب میں بہت کچھ کردار ہمارے بکاؤ میڈیا کا بھی ہے۔

یہاں عورتوں کے حوالے سے کچھ تلخ حقائق کا ذکر کرنا چاہوں گی: اقوامِ متحدہ کے ماتحت تمدن، ثقافت اور علم کے ادارے ''یونیسکو'' کی ایک رپوٹ کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 18 برس کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ ''میڈیا فار ٹرانسپیرنسی'' (میڈیا برائے شفافیت) نامی ایک ادارے نے پنجاب میں عورتوں سے زیادتیوں کے مختلف واقعات کے اعدادوشمار شائع کیے جن میں پولیس ریکارڈ کے مطابق 2014 تا 2016 میں، تین سال کے دوران عصمت دری کے 8000 واقعات درج کیے گئے۔

انگریزی روزنامہ ڈان میں 5 اپریل 2018 کے روز شائع شدہ رپوٹ میں سندھ ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا ریکارڈ دیا گیا جس کے مطابق گزشتہ سال سندھ میں خواتین کے خلاف مختلف النوع جنسی جرائم (بشمول عصمت دری) کے 1643 کیسز درج ہوئے۔ یہ صرف سندھ اور پنجاب کا مختصر احوال ہے، دیگر دو صوبوں کا کوئی ریکارڈ شامل نہیں کیا گیا جہاں خواتین سے ہونے والی زیادتیوں کے کیسز درج نہیں ہو پاتے یا درج نہیں کرائے جاتے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر جمہوری حکومتوں کی کارکردگی کھل کر سامنے آتی ہے۔

دوسری جانب پارلیمنٹ میں اپنی 60 مختص و مخصوص نشستوں پر براجمان ''اشرافیہ کی شہزادیاں'' چند قوانین منظور کرکے سمجھتی ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ باقی بات رہی ان قوانین کے نفاذ کی، تو وہ عورتوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں خاطرخواہ کمی رونما نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ پاکستانی عورت کی حالت یقیناً تب ہی بدلے گی جب اس کی نمائندگی عام عورت کرے گی، کیونکہ شہزادیاں ساٹھ سال سے عام عورت بن کر سوچ نہیں پائیں اور نہ ہی شہزادی ہوتے ہوئے کچھ خاص کرپائیں۔ وہ محض اپنے خاندان کے مردوں کے ذاتی مفادات کے طور پر استعمال ہوئی ہیں، اور آج بھی ہورہی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں