ہمارا بہتر کل

وجاہت علی عباسی  اتوار 29 ستمبر 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

ڈایابیٹیز یوکے برطانیہ کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو ساری دنیا میں ذیابیطس (شوگر) کے کنٹرول کے لیے کام کررہی ہے۔

کچھ عرصے پہلے انھوں نے یونیورسٹی آف گلاسکو کے ساتھ مل کر ایک ریسرچ کی جس سے یہ پتہ چلا کہ برصغیر میں رہنے والوں کی چربی گلانے کی اہلیت گوروں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پاکستان جیسے علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کے پیٹ باہر نکلے ہوتے ہیں جب کہ وزن زیادہ ہونا یا پیٹ کا نکلا ہونا ذیابیطس کی واحد وجہ نہیں ہوتی، لیکن سائنس یہ بتاتی ہے کہ وزن کے زیادہ ہونے سے جسم میں انسولین (Resistance) کم ہوجاتی ہے جس سے انسان ٹائپ ٹو ڈایابیٹیس کا آسانی سے شکار ہوسکتا ہے۔

آبادی کے حساب سے اس وقت ٹائپ ٹو سب سے زیادہ انڈیا میں رہنے والوں کو ہے۔ آبادی کے کم تناسب کے باوجود پاکستان ان ٹاپ ٹین ملکوں میں آتا ہے جہاں شوگر کا مرض یعنی ذیابیطس بہت عام ہے۔ ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ برصغیر کے رہنے والوں کو شوگر ہونے کا رسک باقی دنیا سے چھ فیصد زیادہ ہے، اس کے باوجود پاکستان میں یہ مرض جس تناسب سے بڑھ رہا ہے اگلے دس سال میں ہمارے یہاں اس کے مریض دگنے ہوجائیں گے۔

ریسرچ ہیڈ وکٹوریہ کنگ کہتی ہیں کہ پاکستان و انڈیا کے لوگ اپنے لائف اسٹائل کو بدل کر اس مرض کو دور بھگا سکتے ہیں، لیکن ایک اور ریسرچ کے مطابق ساؤتھ ایشین لوگ سب سے زیادہ اپنا پیسہ اور سوچ ان چیزوں میں لگاتے ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں جیسے ٹیکنالوجی، نیا فون، نیا کمپیوٹر۔ ہم اس بارے میں زیادہ سوچتے ہیں نا کہ صحت۔

ریسرچ بتاتی ہے کہ ایک عام پاکستانی چاہے وہ ملک میں ہو یا ملک سے باہر فون، کمپیوٹرز، گاڑی جیسی چیزوں پر زیادہ اور میڈیکل کے اخراجات پر کم خرچ کرنے پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ذیابیطس نہ نظر آنے والی بیماری ہے اس لیے ہماری سوسائٹی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتی جو اس مرض کے بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔ کھانے کی عادات میں بھی ہم دوسرے ملکوں اور اقوام کے مقابلے میں کافی الگ ہیں، پاکستان کے اسکولوں میں وقفے کے دوران بچے کیا کھا رہے ہیں نہ ہی اساتذہ کو خیال ہوتا ہے نہ ہی والدین زیادہ توجہ دیتے ہیں، بغیر کسی ماہر غذا کی نگرانی کے اسکولوں کے باہر ٹھیلوں پر جو کچھ بک رہا ہوتا ہے بچے لے کر کھا رہے ہوتے ہیں اور یہیں سے ہمارے کھانے میں بدپرہیزی اور بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔

شوگر کی بیماری وہ دیمک ہے جو جسم میں انسولین نہ بننے کی وجہ سے اس کے اعضاء کو چاٹ جاتی ہے اور ہم اس بیماری کو اپنی قوم سے دور بھگانے کے لیے صحیح طرح کام نہیں کر رہے جب کہ ہم بقیہ دنیا سے چھ گنا زیادہ رسک پر ہیں، اس کے باوجود دوسری قوموں کے مقابلے میں ہم اس سے بچنے کی تدابیر میں بہت پیچھے ہیں۔

زندگی میں کچھ بدلاؤ لانے سے اس دیمک سے بہت حد تک چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ جب وزن کم کرنے کی بات آتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کا وزن کسی ماڈل کی طرح ہونا چاہیے جس میں جسم کی چربی دس فیصد سے کم ہو، لیکن سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر جب کسی سے کہتے ہیں کہ شوگر کنٹرول کرنے کے لیے وزن کم کریں اس سے آپ کا بلڈ شوگر لیول کم ہوجائے گا تو یہ بدلاؤ صرف پانچ سے دس پونڈ وزن کم کرنے سے بھی آسکتا ہے۔

ہم بیشتر وقت ’’کل‘‘ میں رہتے ہیں، کبھی گزرے وقت کو یاد کرکے افسوس کرتے ہیں کہ فلاں وقت میں، میں یہ کام کرسکتا تھا جو نہیں کیا یا پھر اپنے آنے والے کل پر ایسے کام کو ڈال دیتے ہیں جو ہمیں ’’آج‘‘ کرنا چاہیے تھا۔ کل ڈائٹنگ کروں گا والی سوچ کبھی نہ کبھی ضرور آتی ہے لیکن بیشتر لوگوں کی زندگی میں وہ کل نہیں آتا جس میں وہ ڈائٹنگ شروع کرتے۔ جب تک ہم ڈائٹنگ یعنی خود کو مشکل میں ڈالنے کا پلان بناتے رہیں گے وہ فیل ہوتا رہے گا۔ ڈائٹنگ نہ کریں صرف اپنی کھانے کی عادتوں کو بدلیں۔ چھوٹے چھوٹے بدلاؤ لائیں، کوئی ایک چھوٹا سا بدلاؤ جیسے سافٹ ڈرنک پینا چھوڑ دیں پھر کچھ دن میں فرائیڈ کھانوں سے گریز کریں، ایسے بدلاؤ لانا آسان اور قابل عمل ہوں گے جو ہر ڈائٹنگ پلان کی طرح تین دن میں دم نہیں توڑ جائیں گے۔

ایک عام اسٹینڈرڈ کے مطابق خواتین جن کی کمر پینتیس انچ سے زیادہ اور حضرات جن کی چالیس انچ سے زیادہ ہے۔ ان کو شوگر کا مرض لاحق ہونے کے چانسز زیادہ ہیں جب کہ جسم کے لیے ورزش بھی ضروری ہے لیکن ٹائپ ٹو ذیابیطس کے لیے کھانا پینا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے کسی شخص کو جسے یہ مرض لاحق ہے اسے بھی دن میں اتنی ہی کیلوریز لینی چاہئیں جو ایک عام آدمی کو لینی چاہئیں، فرق صرف اتنا ہے کہ شوگر کے مریض کو اپنے کاربوہائیڈریٹس کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کاربس سے گریز کرنا اچھا ہے جو سوڈا، کیک جیسی پروسیسڈ چیزوں سے آتی ہیں۔ ذیابیطس کے ہوجانے پر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اب وہ کچھ نہیں کھا سکتے، جو سچ نہیں ہے بس کچھ چیزوں میں بدلاؤ لائیں جیسے سفید چاولوں کی جگہ براؤن رائس یا پھر آلو کی جگہ شکر قندی اس کے علاوہ وہائٹ بریڈ کی جگہ Whole Wheat۔

اگر آپ کو یا آپ کے کسی قریبی دوست یا عزیز کو ڈاکٹر ذیابیطس تشخیص کرتا ہے تو چیزوں کو مشکل سمجھ کر پریشان نہ ہوں ان کا سامنا حوصلے سے کریں، اگر کسی چیز کا بہت دل چاہ رہا ہے تو اس کو روکیں نہیں صحیح پلاننگ کریں۔ کیک کھانا ہی ہے تو اس دن چاول اور روٹی سے پرہیز کریں۔

ورزش ضرور کریں، آپ کو سپراسٹار سلمان خان کی طرح جم میں روزانہ بھاری بھاری وزن نہیں اٹھانے لیکن ہفتے میں چار دن تیس تیس منٹ کوئی ورزش ضرور کریں چاہے وہ تیز واک ہی کیوں نہ ہو۔

ذیابیطس سے ڈیل کرنا مشکل ضرور ہے لیکن سمجھداری سے کام لینے والوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسے کرکٹر وسیم اکرم اور ٹی وی اسٹار فواد خان اس بیماری کو کنٹرول کرکے ایک نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔

ہماری قوم میں شوگر کا مرض ہونے کے چھ گنا زیادہ چانسز ہیں، اس لیے دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمیں چھ گنا زیادہ خیال رکھنا چاہیے اپنے بہتر کل کے لیے۔ وہ کل جس میں ہمیں ڈایابیٹیس کی دیمک نہ لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔