2019ء بھی نیشنل ہیلتھ پالیسی کے بغیر گزر گیا، شعبہ صحت انتہائی پستی کا شکار

طفیل احمد  منگل 31 دسمبر 2019
سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں کم ہو کر 35 سے 40فیصد رہ گئیں، دواؤں،ڈاکٹرزسمیت مشینری کی کمی ،مسائل مزید گمبھیر
 فوٹو : فائل

سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں کم ہو کر 35 سے 40فیصد رہ گئیں، دواؤں،ڈاکٹرزسمیت مشینری کی کمی ،مسائل مزید گمبھیر فوٹو : فائل

کراچی:  پاکستان میں صحت کا شعبہ انتہائی پستی کا شکار ہے کسی بھی حکومت نے اس اہم شعبے کی اہمیت کواپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔

ملک میں 18ویں ترمیم کے بعد اور 9سال گزرنے کے باوجود نیشنل ہیلتھ پالیسی مرتب ہی نہیںکی جا سکی، گزشتہ 10سال میں مختلف امراض میں 100 فیصد اضافہ ہوا پاکستان میں سیاسی پیچیدگیوںکی طرح صحت کے مسائل بھی ہولناک رہے۔

سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں کم ہوکر40 فیصد رہ گئیں جبکہ نجی اسپتالوں میں 60 فیصد صحت کی سہولتیں فراہم کی گئیں، ڈنگی وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں پلیٹ لیٹ نہ ملنے کی شکایت رہی، 22 کرڑوکی آبادی کیلیے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اوران میں بھی ادویات، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف سمیت بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے صحت کی مسائل کو مزید گمبھیر بنادیا ۔ سرکاری اسپتالوں میںکبھی ادویات کی قلت تو کبھی مشین کی خرابیوں کا سامنا رہا۔

ملک کے دوسرے صوبوںکے ساتھ ساتھ محکمہ صحت سندھ اور بلدیہ عظمی کراچی اپنی نااہلی  پر پردہ ڈالنے کیلیے عوام کی زندگیوں سے کھیلتے رہے۔ سال 2019 کے اختتام پر صوبے میں 16 ہزار سے زائد افراد ڈنگی مچھر کا شکار ہوئے، ٹائیفائڈ سے لڑتے ہوئے 25 ہزار بچے صوبے کے مختلف اسپتالوں میں لائے گئے جس میں سے 9 معصوم جاں بحق ہوگئے، 2019 میں تھر میں صحت کی عدم سہولیات اور غذائی قلت کی وجہ سے درجنوں بچے ہلاک ہوئے۔ ۔پاکستان میں منہ کی کینسر کی شرح 10 فیصد اضافہ ہواجبکہ کراچی میں اس کی شرح 30 فیصد ہے۔

پاکستان میںکتوں کے کاٹنے کی ویکسین (اینٹی ریبیزویکسین) کی قلت کاسامنا رہا۔ ٹائیفائڈ ویکیسن کو ای پی آئی پروگرام میں شامل کیا گیاٹائیفائڈ کنجوگیٹ ویکیسن بچوں میں XDR ٹائیفائڈ کیلیے موثر ہے،کراچی سمیت صوبے کے ٹیچینگ سرکاری اسپتالوں سے استعمال شدہ طبی فضلے کو سائنسی بنیاد پر ٹھکانے لگانے کیلیے پہلی بار ڈیپ ہیٹ اسٹیلائزیشن پلانٹ لگے۔

22کروڑ آبادی والے ملک میں ڈاکٹرزکی تعدادصرف ایک لاکھ 223 ڈاکٹرز ہیں، آبادی کے لحاظ سے ملک کے 1073 افرادکے علاج و معالجے کیلیے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے ،سندھ میں محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے صحت کے منصوبوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی انسداد نابینا پن پروگرام کو خاموشی سے کراچی سے حیدرآباد منتقل کردیاگیا یہ پروگرام صرف کاغذات میں شامل ہے تاہم عملا اس پروگرام سے بینائی سے محروم افراد محروم ہیں۔

نیوٹریشن، انسداد ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام، سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام، ماؤں اورنوزائیدہ بچوںکی صحت پروگرام، انسداد ٹی بی، ملیریا کنٹرول ، ڈنگی پروگرام اورلیڈیز ہیلتھ ورکرز پروگرام کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں کرکے من پسند افسران کی تعیناتیاں کی گئیں اور ان پروگراموںکوبراہ راست ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفسران کے ماتحت کر دیا گیا، ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ ان پروگراموںکی مانیٹرنگ کریںگے، اب بجٹ ڈی ایچ اوزکو دیا جائیگا اور پروگراموں میں سے صوبائی مینجرزکی اسامیاں ختم کردی گئیں ،2019میںصدراتی آرڈینس کے تحت پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل قائم کی گئی۔

بعدازاں اکتوبر 2019 میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو ختم کرکے اس کی جگہ پہلی بار پاکستان میڈیکل کمیشن کی بنیاد رکھی گئی، حکومت کی جانب سے صحت انصاف کارڈ تھر کے بعدکے پی کے اور پنجاپ کے 3 بڑے شہروں میں شروع کیا گیا۔ طبی سہولتوںکے حوالے سے کراچی میں گزشتہ 10 سال کے دوران صرف بے نظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ٹراما سینٹر 9 سال کی تاخیر کے بعد تعمیر کیاگیا ،ابتدا میں اس ٹراما سینٹر کا تخمینہ 2ارب تھا بعدازاں 6 ارب سے زائد رقم میں تعمیر کیا گیا جو تاحال مکمل فعال نہیں اس میگا منصوبے کے بعد سندھ میںکوئی نیااسپتال تعمیر نہیں کیا جا سکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔