کیا انتخابات کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا؟

شاہد کاظمی  جمعـء 27 مئ 2022
عمران خان کے پاس انتخابات کے بعد کا کیا لائحہ عمل ہے؟ (فوٹو: فائل)

عمران خان کے پاس انتخابات کے بعد کا کیا لائحہ عمل ہے؟ (فوٹو: فائل)

پاکستان اس وقت حقیقی معنوں میں 90 کی دہائی کی سیاست میں واپس پہنچ چکا ہے۔ اور شنید یہی ہے کہ حالات اداروں کی نہ صرف محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہے ہیں، بلکہ اداروں کو متنازع بنانے کی بھی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔ مزید مقامِ حیرت ہے کہ اس کوشش میں ہر اول دستے کا کردار وہ ادا کر رہے ہیں جو خود کو جمہوریت کا سرخیل سمجھتے ہیں۔ اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے تمام سیاسی رہنما دوسروں کو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں۔ جمہوری روایات کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھنے والے ہی اس وقت جمہوریت کی سربلندی کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ کرسیٔ اقتدار سے چمٹے رہنے والے سیاسی بہروپیے، اپنے آپ کو عوام کا خادم، تبدیلی کا سالار، لبرل ازم کے نمائندہ گنوا رہے ہیں۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا محاورے کے بجائے حقیقی معنوں میں سمجھنا مقصود ہو تو اس وقت پاکستان کی سیاست کا میوزیکل چیئر کا کھیل دیکھ لیجئے۔ آپ کو اس میں 90 کی دہائی کی جھلک دکھائی دے گی، جب کوئی بھی اقتدار سے دوری کو اپنی تباہی تصور کرتا تھا۔

جمہوری معاشروں میں، جہاں جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذالعمل ہے، وہاں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کا کردار اہم تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ کہیں اپوزیشن کو کوئی ایسی کڑی نہ مل جائے کہ وہ ایوان میں ہماری کلاس کا سامان کرلے۔ مہذب جمہوری معاشروں میں حکومت کے متوازی ایک اپوزیشن کی کابینہ تشکیل دیے جانے کی روایت موجود ہے۔ اس نظام کو (Shadow Cabinet) یعنی متوازی کابینہ کہہ سکتے ہیں۔ ایک ایسا آئینہ جس میں حکومت کی کارکردگی کا عکس بھی دکھائی دے سکے اور اس پر ضروری اقدامات بھی ایسے کیے جاسکیں کہ حکومتِ وقت کو باور کروایا جاسکے کہ انہوں نے فلاں کام کیا ہے، وہ بہتر انداز میں اِس طریقے سے بھی ہوسکتا ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اٹلی، آئرلینڈ وغیرہ میں یہ نظام جمہوریت کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

ہم ایشیا میں خود کو تیسری دنیا (خود ساختہ) میں شمار کرتے ہیں، لہٰذا ابھی ہمارے ہاں یہ روایت پنپ نہیں سکی۔ ایران واحد ملک ہے جہاں یہ اصطلاح کچھ حد تک دکھائی دی، جب 2013 کے صدارتی انتخابات میں ہارنے کے بعد سعید جلیلی نے شیڈو کیبنٹ کی تجویز پیش کی کہ حکومت وقت کی اصلاح کے ساتھ تجاویز بھی پیش کی جاسکیں۔ لیکن بطور مجموعی، ایشیائی ممالک اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ شیڈو کیبنٹ کے بعد شیڈو بجٹ کو بھی جمہوری معاشروں میں اہمیت حاصل ہے۔ حکومتی ٹیم کے بالکل متوازی اپوزیشن میں بھی ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا جانا کہ وہ حکومت وقت پر کڑی نظر رکھ سکے، اپنی دانست میں بھی ایک بہترین نظام ہے۔ مثال کے طور پر حکومتی وزیر خزانہ اگر کوئی غلطی کرے گا تو شیڈو کیبنٹ کا وزیر خزانہ اس کو نہ صرف عوام میں اس کی تشہیر کرے گا بلکہ ایوان میں بھی اس کی بنیاد پر حکومتی وزیر خزانہ کی کلاس لے گا۔ اسی طرح شیڈو کیبنٹ حکومتِ وقت کے بجٹ کے متوازی اپنا بجٹ پیش کرتی ہے۔ یعنی آپ اپوزیشن میں ہیں تو اپنے تمام نکات کو پھر بھی عوام کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں ایسی روایات پنپ نہیں سکیں۔ اور یہاں صرف کرسی سے چمٹے رہنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور حکومت مل جائے تو ٹرانسپورٹ کا ماہر ہوسکتا ہے خزانہ کے معاملات دیکھ رہا ہو، خزانہ کا ماہر ہوسکتا ہے دفاع کی وزارت سنبھال لے، مواصلات کو جاننے والا ماحولیات سنبھال لے گا، جہاز رانی میں زندگی گزار دینے والا امورِ کشمیر کی وزارت سنبھال لے گا، وغیرہ وغیرہ۔ قابلیت سے زیادہ نوازنے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ شیڈو کیبنٹ، صدارتی مباحثہ، پارٹی انتخابات، انتخابی اصلاحات، ادارہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے ہمارے ہاں نیرو ابھی چین کی بانسری بجاتے ہوئے سو رہا ہے، اور اس حوالے سے نہ تو حکومت، نہ ہی اپوزیشن کوئی بھی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے خلاف لٹھ لے کر پڑے رہے، اور اب پی ٹی آئی حکومتی اتحاد کے پیچھے لٹھ لے کر پڑی ہوئی ہے، احتجاج اور لانگ مارچ کی دہائی ہے۔

سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاسی پارٹیاں کیوں صرف اقتدار میں ہی آنا چاہتی ہیں؟ نواز لیگ نے بڑے دعوے کیے لیکن حکومت سنبھالتے ہی ڈالر 200 سے بھی اوپر ہوگیا اور پٹرول کی قیمت کو پر لگ چکے ہیں۔ ایسے حالات میں فرض کیا حکومت پی ٹی آئی کو ہی واپس مل جاتی ہے تو کیا پی ٹی آئی دعوے سے کہہ سکتی ہے کہ حکومت دوبارہ ملنے پر وہ بھونڈی دلیلیں نہیں دیں گے؟

خدارا اس ملک کے ساتھ کھلواڑ ختم کیجیے۔ کوئی بھی جانے والی حکومت اس بات کو موضوع بنانا ہی گوارا نہیں کرتی کہ اس نے اپنے منشور پر کتنا عمل کیا۔ بلکہ وہ سیاسی شہید بننے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ن لیگ اپنے منشور کی ناکامی کے بجائے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا رونا روتی رہی۔ بالکل ویسے ہی اس وقت پی ٹی آئی اپنے گریباں میں جھانکنے کے بجائے ’’مجھے واپس لاؤ‘‘ کا بیانیہ اپنائے ہوئے ہے۔

عقل پر شاید پردہ پڑا ہے، یا جانتے بوجھتے پہلوتہی برتی جارہی ہے کہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے کا واحد مقصد ہی یہی ہے کہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی عادت نہیں رہی۔ ورنہ حقیقی معنوں میں سیاستدان ہوتے تو جیسے اپوزیشن نے عدم اعتماد کا قدم ساڑھے تین سال بعد اٹھایا، آپ بھی ایک سال صبر کرتے اور حکومتی ناکامیوں کو مکمل طور پر کیش کرواتے۔ انتخابی اصلاحات کرواتے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کی طرف جاتے۔

پولیس ریفارمز کا حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تین سال میں پولیس کا ادارہ ٹھیک نہ کرسکی اور ابھی گلہ ہے کہ ان کے خلاف پولیس کارروائی ہو رہی ہے۔ ارے صاحبان، آپ اگر پولیس میں ریفارمز کردیتے تو آج پولیس آپ کے خلاف کارروائیوں سے انکار کردیتی۔ آپ کے پاس اقتدار رہا تو آپ کلرکوں کی طرح پاکستان کے اہم ترین صوبے کے پولیس چیف تبدیل کرتے رہے اور گلہ موجودہ حکومت پر ہے۔ بیوروکریسی نے صرف اس وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیا کہ نجانے کب تبدیلی سرکار تبدیل کردے، تو پھر اب گلہ کیسا آپ کو؟ انتخابی اصلاحات کے بنا جو انتخابات میں جانے کی ضد ہے تو ایک فائدہ گنوا دیجیے کہ بنا اصلاحات کے انتخابات ہوئے تو فائدہ کیا ہوگا؟

اپوزیشن کا کردار، حقیقی جمہوری معنوں میں دیکھیں تو، حکومت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ حکومتی ٹیم کے متوازی ٹیم تشکیل دے کر، اپنا بجٹ حکومت کے متوازی پیش کرکے، اور ایک ایک فیصلے کا تنقیدی جائزہ لے کر نہ صرف حکومت پر تنقید کا مثبت پیرایہ اپنایا جاسکتا ہے بلکہ مستقبل میں اپنی حکومت کی راہ بھی ہموار کی جاسکتی ہے۔ لیکن نہیں جناب یہاں تو صرف ’’یا کرسیٔ اقتدار تیرا ہی آسرا‘‘ کا نعرہ ہے اور بس۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔