غزل
دعائے مرگ ہے اور خواب زندگی کے ہیں
یہ دونوں رنگ فقط ایک بے بسی کے ہیں
اگر وہ شوخیاں کرنے لگے تو کیا ہو گا
ہم ایسے لوگ تو گھائل ہی سادگی کے ہیں
نہ زخم سہنے کی ہم میں سکت نہ دینے کی
نہ دوستی کے ہیں قابل نہ دشمنی کے ہیں
ہم انتظار میں ہیں کون پہلے جھپکے آنکھ
درونِ شہر مگر چرچے دوستی کے ہیں
مرید بن کے درِ اقتدار پر بیٹھے
یہ سارے لوگ بھی قائل برابری کے ہیں
عجیب ٹیس ہے جاذب ؔگھڑی کی ٹک ٹک میں
بتا رہی ہے کہ مہمان دو گھڑی کے ہیں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
غزل
جب سے گیا ہے چھوڑکے اے یار تُو مجھے
زنداں لگا ہے شہر یہاں چار سو مجھے
اِس آس پر کہ کوئی ملے ہم سُبو مجھے
میرا جنون لے کے پھرا کُوبہ کُو مجھے
شامِ غمِ بہار! مجھے دشت لے چلو
کرنی ہے خامشی سے ذرا گفت گو مجھے
افسوس! اِس گلی میں بھی قاتل کا راج ہے
ہر سمت لگ رہا ہے ٹپکتا لہو مجھے
شاید غموں کی دھوپ سے دل جل گیا مرا
آنے لگی ہے آہ سے جلنے کی بُو مجھے
گھٹنے لگا ہے ہجر میں دم اِس مریض کا
اے بادِ موت! جلد سے تو آکے چھو مجھے
میں نے نمازِ عشق کی ایسی قضا پڑھی
آنسو کرا رہے ہیں ابھی تک وضو مجھے
ثاقبؔ کے زخم سیتے ہیں خنجرکی نوک سے
اچھا نہیں لگا ہے یہ طرزِ رفو مجھے
(اقبال ثاقب۔ضلع کوہستان، خیبر پختونخوا)
غزل
تلاش کرلو ہو مجھ سا کوئی کہیں دوانہ مجھے بتانا
ملے نہ تم کو کسی کے دل میں اگر ٹھکانہ مجھے بتانا
اداس شامیں اداس راتیں تمھیں ستائیں اگر رلائیں
اگر ہو ایسے کسی بھی موقع پہ مسکرانا مجھے بتانا
وصال مشکل فراق آساں کرے کسی دن تمھیں ہراساں
میں جان لوں بے بسی تمھاری مگر بہانا مجھے بتانا
مری وہ دیوانگی پہ مارے ہزاروں طعنے ہزاروں تشنے
جو نام لے کر مرا ستائے تمھیں زمانہ مجھے بتانا
ابد سے لے کر ازل تلک ہوں میں رازدانِ خدا یقیں کر
ہے رمز کوئی جو تیرے دل میں مجھے سنانا مجھے بتانا
برائے فرقت لٹائے بیٹھا ہوں گنجِ عالم وہ تجربہ ہے
تمھیں بھی اشکوں کا ہو لٹانا اگر خزانہ مجھے بتانا
تمھیں سناؤں گا بیٹھ کر میں مری جوانی کے سارے قصّے
کسی سے جس دن تمھیں محبت ہو والہانہ مجھے بتانا
سخن شناسی کے گل جو مہکے سخنوری کو ہوا میں دوں گا
مزاج بننے لگے ترا بھی جو شاعرانہ مجھے بتانا
مریضِ دل کا علاج ہے بس وصالِ جاناں یہی کہوں گا
تمھارا دل بھی کسی نظر کا بنا نشانہ مجھے بتانا
قلندروں کی قلندری پر کہا ہے میں نے کلام اتنا
تمھیں بھی کہنی کوئی غزل ہو جو صوفیانہ مجھے بتانا
(محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ ،ضلع آکولہ، مہاراشٹر، انڈیا)
غزل
خدا کرے کہ بس اک بار وہ دوبارہ ملے
کہ آفتاب کو جیسے کوئی ستارہ ملے
میں توڑتا ہوں تری یاد کے بُت ہاتھوں سے
بنانے لگتے ہیں پھر ہاتھ جہاں گارا ملے
میں تیر سکتا تھا لیکن ڈبو دیا خود کو
بھنور کا دھیان بٹے، اور اُسے کنارہ ملے
میں چاہتا تھا ترا ہاتھ تھام لے کوئی
میں چاہتا تھا مجھے عشق میں خسارہ ملے
تم اب بھی میری غزل گنگنا کے پڑھتی ہو؟
جواب ہاں میں اگر ہے، تو کچھ اشارہ ملے
تمہاری کھوج زمین و زماں پہ جاری ہے
کہیں تو نام و نشاں کوئی اب تمہارا ملے
ہماری عشق ندی کا ہے یار میٹھا جل
فہدؔ ہوس کا سمندر نہیں کہ کھارا ملے
(سردار فہد۔ ایبٹ آباد)
غزل
کاسۂ زیست میں چشمِ تر بھی نہ ہو اور گھر بھی نہ ہو
ڈوبنے کے لیے اک بھنور بھی نہ ہو اور گھر بھی نہ ہو
ہاتھ تھامے ہوئے کوئی چلتا رہے خواب کے درمیاں
آنکھ کھلنے پہ کوئی سفر بھی نہ ہو اور گھر بھی نہ ہو
مدتوں بعد جب چاندنی رات میں کوئی کھڑکی کھلے
اس گلی میں ہمارا گزر بھی نہ ہو، اور گھر بھی نہ ہو
کاروبارِ محبت میں یوں بھی نہ ہو ماسوا شعر کے
اپنے دامن میں کوئی ہنر بھی نہ ہو اور گھر بھی نہ ہو
رات بھر اک گلوکار غمگین موسیقی گاتا رہے
اُس کے لہجے کا مجھ پر اثر بھی نہ ہو اور گھر بھی نہ ہو
اک کلی کی طرح شاخِ اُمّید پر کِھلنا دشوار ہے
جبکہ عمرِ گریزاں بسر بھی نہ ہو، اور گھر بھی نہ ہو
میری دیوار کے سارے منظر تصوّر سے منسوب ہیں
نوجوانی میں ایسی نظر بھی نہ ہو، اور گھر بھی نہ ہو
اک ملاقات ہو جس میں پوروں تلے جسم ڈھلنے لگے
ہو محبت مگر اس قدر بھی نہ ہو، اور گھر بھی نہ ہو
(حسن فاروق۔ فتح جنگ)
غزل
تعبیر اور خواب کی دعوت نہ دے مجھے
اس وقت انقلاب کی دعوت نہ دے مجھے
دلکش سے اک سراب پہ پہنچی ہے تشنگی
جلدی میں سیل ِ آب کی دعوت نہ دے مجھے
منہ میں مرے نیاز کی خوشبو بسی رہے
اے دوست تو شراب کی دعوت نہ دے مجھے
میرے چنے کو رہنا ہے معیار پر سدا
بہتر ہے انتخاب کی دعوت نہ دے مجھے
چہروں کو پڑھ چکا ہوں خرابے سے شہر تک
ان پر چھپی کتاب کی دعوت نہ دے مجھے
تریاقِ بے حسی یہ لفاظی نہیں اگر
تو پھر کسی خطاب کی دعوت نہ دے مجھے
میں بدگمانیوں میں ہی مصروف ہوں بہت
اوپر سے اضطراب کی دعوت نہ دے مجھے
اپنے ہنر کا بھیج بلاوا کہ آسکوں
غیروں کے لطف و لاب کی دعوت نہ دے مجھے
ناکام جلد باز کا مہمان ہوں ابھی
تو سست کامیاب کی دعوت نہ دے مجھے
پت جھڑ کے لوٹنے کا مناتا نہیں میں جشن
کھلتے ہوئے گلاب کی دعوت نہ دے مجھے
ساگرؔ مصالحت کا مجھے رکھنے دے خیال
اب عشق کے نصاب کی دعوت نہ دے مجھے
(ساگرحضورپوری۔قطر)
غزل
ہر کسی پر یہ اجارہ تو نہیں ہوتا نا
عشق ہے عشق دوبارہ تو نہیں ہوتا نا
حسبِ توفیق ہی ملتی ہے محبت لیکن
حسبِ توفیق گزارا تو نہیں ہوتا نا
جو بھی چاہو وہ مری ذات سے لے لو آکر
عشق میں میرا تمہارا تو نہیں ہوتا نا
تم جسے پیار سمجھتے ہو سمجھتے جاؤ
کچھ سمجھنے میں خسارا تو نہیں ہوتا نا
کس طرح بزم عداوت سے کنارا کرلوں
یار لوگوں سے کنارا تو نہیں ہوتا نا
ہر کسی کو تو نہیں اپنی حیاتی کرتے
ہر کوئی جان سے پیارا تو نہیں ہوتا نا
لفظ گر شعر میں آتا ہے منافق بن کر
لفظ ہے سیدھا اشارہ تو نہیں ہوتا نا
رات کے پچھلے پہر جھیل کے پانی سے پرے
چاند ہوتا ہے ستارہ تو نہیں ہوتا نا
تُومجھے قیس سمجھ کر نہ بلاتا فیضیؔ
گر یہ صحرا نے پکارا تو نہیں ہوتا نا
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)
غزل
نشاطِ زیست کو ہم بے مزہ نہیں کرتے
کوئی بھی کام ہو ہم بے وجہ نہیں کرتے
وفورِشوق سے دامن کیا ہے چاک اتنا
رفوگرانِ جہاں حوصلہ نہیں کرتے
ہزاروں عیب ہیں تجھ میں اے بے وفا لیکن
’یہ اور بات ہے تجھ سے گلہ نہیں کرتے ‘
جو دیکھ لیتے ہیں اُن مدھ بھری نگاہوں کو
تمام عمر وہ کوئی نشہ نہیں کرتے
اے عشق تجھ سے یہی آخری مکالمہ ہے
ختم وفاؤں کا ہم سلسلہ نہیں کرتے
شبِ فراق میں اشکوں نے یہ صدا دی عمیرؔ
حضورِعشق میں عاشق گلہ نہیں کرتے
(عمیر عزیز۔ فیصل آباد)
غزل
جہدِ پیہم کا جو کچھ بھی نہ صلہ ہوتا ہے
بس اسی بات پہ قسمت سے گلہ ہوتا ہے
ہم جسے اپنا سمجھتے ہیں بھروسہ کرکے
وقت آنے پہ وہ غیروں سے ملا ہوتا ہے
میری خواہش ہے کہ پت جھڑ میں بھی خوشبو بانٹوں
فصلِ گل میں تو ہر اک پھول کھلا ہوتا ہے
ہے وہ انسان جو اوروں کے لیے جیتا ہے
خود کے مقصد پہ تو حیواں بھی فدا ہوتا ہے
کیا بھلے دن تھے ہر اک بات تری سچ تھی مگر
ایک وعدہ بھی نہ اب تجھ سے وفا ہوتا ہے
(محبوب الرّحمان محبوب۔سینے،میاندم،سوات)
’’دسمبر‘‘
صبح بستر پہ
تھک کے سوئی سی
رات روئی سی!
اندھی چیخوں کی
چپ پہ حیراں سا
دن پریشاں سا
بوڑھے برگد کی
سوکھی ڈالی سی
شام خالی سی!
اس پہ یادوں کے
اک سمندر سا
یہ ’’دسمبر‘‘ سا
ایسے آتا ہے جیسے سینے پر
پچھلی عمروں میں رفتگاں بن کے
وحشتوں کے عذاب آتے ہوں
میرے جیسے ہزاروں لڑکوں کو
رتجگوں کے حساب آتے ہوں
صبح کالج میں کچھ نہیں آتا
پر محبت کے خواب آتے ہوں
(احمد قاسم۔ عارف والا)
غزل
تو نہیں تو بندگی کچھ بھی نہیں
تیرے بن یہ زندگی کچھ بھی نہیں
فخر سے انسان کرتے ہیں گناہ
آنکھ میں شرمندگی کچھ بھی نہیں
بن چکا ہے اب زمانہ مطلبی
دوستوں میں مخلصی کچھ بھی نہیں
کر چکا ہے نفس کا سودا تبھی
سامنے اس کے خودی کچھ بھی نہیں
پوچھتے اوقات ہو عابدؔ کی کیا
ما سوائے عاجزی کچھ بھی نہیں
(محمد عابدؔ جعفری۔ ملتان)
غزل
خوشبوؤں کی بنی قبا ہوجائیں
ایک دوجے میں ہم فنا ہوجائیں
تم ہمیں ڈھونڈو ہم تمہیں ڈھونڈیں
سوچتے ہیں کہ لاپتہ ہوجائیں
سازشیں کرنے والے کرتے رہیں
غیر ممکن ہے ہم جدا ہوجائیں
جس طرف سے گزر ہو اس گل کا
سنگ رستے کے آئنہ ہو جائیں
اب بھروسا نہیں رہا کسی پر
خود ہی کشتی کے نا خدا ہو جائیں
حوصلوں کو جو پیرہن کر لیں
مشکلیں سب ابھی ہوا ہو جائیں
گل عذاروں کے ہم ہیں عاشق زار
غیر ممکن ہے پارسا ہو جائیں
آنکھ دنیا سے بند کر لیں مگر
ذات سے اپنی آشنا ہو جائیں
توڑ دیں گر دوئی کی دیواریں
نورؔ ہم لوگ کیا سے کیا ہوجائیں
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی ،انڈیا)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی