بھارت میں مسلمان خواتین کی مشکلات

دیہات میں بعض علما کے فتووں سے جگ ہنسائی ہوتی ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan July 21, 2012
[email protected]

PARIS: بھارتی شہر باغ پت کے قریبی گائوں میں مسلمان برادری کی پنچایت نے مسلمان خواتین کے بازار جانے اور موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگادی ہے۔ گائوں عاصرہ میں مسلمانوں کی پنچایت میں یہ فیصلہ خواتین کو چھیڑنے اور غیر مردوں سے دوستی کی روک تھام کے لیے کیا گیا ہے۔

بھارتی ذرایع ابلاغ نے اس فیصلے کو محبت کی شادی کے رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کہا ہے اور اس فیصلے کو طالبان کے افغانستان کے اقتدار میں ہونے والے فیصلوں کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔

باغ پت میں جہاں ہندو جاٹ برادری کے پنچایتی نظام کی جڑیں خاصی گہری ہیں وہاں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے انتخابی حلقے میں یہ علاقہ بھی شامل ہے، پنچایت میں منظور کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ خواتین کے تحفظ اور رومیو جولیٹ جیسی صورتحال کے تدارک کے لیے کیا گیا ہے۔ بھارت میں سماجی کارکن پنچایت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ کے احکامات اور بھارتی آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں مگر بھارتی حکومت نے پنچایت کے خلاف سخت اقدام کرنے کے بجائے متعلقہ ریاست کی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اس اعلان سے متاثرہ لوگوں کی دادرسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بھارت کا قیام سیکولر ازم کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا،

بھارتی آئین کے تحت تمام شہریوں کو بلاتخصیص مذہب، ذات، جنس یکساں حقوق حاصل ہیں مگر بھارت میں ترقی کا ثمر پورے ملک کے عوام کو پہنچنے کے بجائے بڑے اور چھوٹے شہروں تک محدود ہو گیا۔ تعلیم نہ پھیلنے اور ترقی کے یکساں مواقعے نہ ملنے کی بنا پر کروڑوں لوگ غربت و افلاس کا شکار ہیں، ان میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان بھی شامل ہیں۔

بھارت کے سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی اپنیقدامت پسندانہ قدریں ہیں اور ان وجوہات میں ریاستی اداروں کے امتیازی سلوک کے علاوہ مسلمانوں میں اپنی پسماندگی بھی شامل ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی اکثریت اب بھی دیہات میں رہتی ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد شہروں میں آباد ہے جہاں صحت، روزگار اور اعلیٰ معیار کی تعلیم کی سہولتیں موجود ہیں مگر بھارت کے بڑے شہروں دہلی، ممبئی، کولکتہ میں آبادی کا ایک حصہ 63 سال گزرنے کے باوجود بھی کچی بستیوں میں مقیم ہے جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔

بھارتی شہروں اور دیہات میں اعلیٰ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اور خاصے خوشحال بھی ہیں، ان میں خواتین کی اکثریت بھی شامل ہے مگر شہروں کی کچی آبادیوں اور دیہات میں آباد مسلمانوں کے حالات خاصے برے ہیں۔ ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور نہ ہونے، صحت، روزگار، رہائش کی ناکافی سہولتوں کی بنا پر رجعت پسندانہ خیالات کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ ان مسلمانوں میں خواتین کو کوئی حیثیت حاصل نہیں، مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور اس آبادی کی بنا پر مسلمان ایک پریشر گروپ کی حیثیت تو اختیار کر گئے مگر ناقص سماجی زندگی ان کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد بھارت کے مسلمان کمزور پوزیشن میں آ گئے تھے۔ اس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے رہنمائوں نے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ دیا، ان رہنمائوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ مسلمان مرد و خواتین تعلیم اور روزگار کی طرف توجہ دیں اور بھارتی آئین کے سیکولر تشخص کی مکمل حمایت کی جائے مگر مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، فخر الدین علی احمد جیسے رہنمائوں کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جن لوگوں نے مسلمانوں کی قیادت کی وہ محدود ویژن کے مالک تھے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب مذہبی انتہا پسندی کی ریاستی سطح پر سرپرستی کی گئی تو اس کے اثرات بھارتی مسلمانوں پر بھی پڑے۔ اس دور میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایک 60 سالہ مسلمان عورت شاہ بانو کے اپنے شوہر سے طلاق کے بعد شوہر کی جائیداد میں حصے کے بارے میں تاریخی فیصلہ دیا۔ اس فیصلے سے مسلمان عورت کی سماجی حیثیت بہتر ہوتی مگر مسلمان مذہبی رہنمائوں نے شہروں میں بھارتی سپریم کورٹ کے خلاف ایک تحریک شروع کردی۔

مسلمان رہنمائوں نے اپنے اس جذباتی فیصلے میں اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ جب ایک اقلیت مذہبی تحریک چلائے گی تو اکثریت کے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی جلد ہی دبائو میں آگئے، انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی اور شاہ بانو کو سپریم کورٹ سے ملنے والا فائدہ ختم ہوگیا۔ مسلمانوں کی اس تحریک کے نتیجے میں ہندو اکثریت میں موجود انتہا پسند بیدار ہو گئے، ان انتہا پسندوں نے ایڈوانی اور واجپائی جیسے انتہا پسندوں کے گرد جمع ہونا شروع کیا، بھارتی معاشرے میں انتہا پسندانہ خیالات، رواداری اور برداشت کی روح کو نقصان پہنچنا شروع ہوا اور سیکولر روایت پامال ہوئی۔

نائن الیون کے دہشت گردی کے سانحے اور اسامہ بن لادن کے عروج پر آنے کے واقعات سے بھارتی مسلمان بھی متاثر ہوئے، ان میں انتہا پسندانہ نظریات سرائیت کرنے لگے، ان نظریات میں آبادی بڑھانا، جدید تعلیم حاصل نہ کرنے اور مذہبی ریاست کے قیام کا معاملہ شامل تھا۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد اب تک مجموعی حالات بہتر ہوئے ہیں، روزانہ کسی نہ کسی بات پر ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والے فسادات ماضی کی تاریخ بن گئے ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان علماء میں جدید خیالات کی روایت بھارت میں خاصی قدیم ہے مگر وہاں مولانا عبدالوحید اور علی اصغر انجینئر جیسے روشن خیال علما بھی موجود ہیں۔

دیہات میں بعض علما کے فتووں سے جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ گزشتہ سا ل یوپی کے ایک گائوں میں ایک مخصوص فرقے کی مسجد میں دوسرے فرقے کے امام کی حیثیت سے نماز میں شرکت کرنے والوں کے نکاح باطل قرار دینے کا فیصلہ دیا گیا۔ فیصلے سے مسلمانوں کی بہت بدنامی ہوئی۔ انسانی حقوق کے کارکن باغ پت میں مسلمانوں کی پنچایت کے عورتوں کے خلاف فیصلے کو بنیادی حقوق پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ Right to Movement پر مرد و عورت کا حق ہے،

اگر عورتوں سے چلنے پھرنے کا حق چھینا گیا تو وہ تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہوجائیں گی۔ یہ فیصلہ افغانستان میں طالبان کی حکومت، پاکستان کے قبائلی علاقوں اور سوات میں طالبان کے غلبے کے وقت کے حالات سے یکسانیت رکھتا ہے۔ طالبان نے افغانستان میں برسراقتدار آنے کے بعد مسلمان خواتین کو گھروں میں محدود کر کے ان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے کر دیا ہے، اگر بھارت کے دیہاتوں میں مسلمان خواتین پر اس طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں تو ترقی کی شرح متاثر ہو گی۔

پاکستان کے معروف انگریزی روزنامے کے نئی دہلی میں نمایندے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی طالبان کے سامنے بھارتی حکومت کی بے بسی کا ذکر کیا ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا بھارتی حکومت کو پنچایت کے فیصلے کو کالعدم قراردینے کے لیے ریاستی طاقت استعمال کرنی چاہیے، اس سوال پر غیر جذباتی انداز میں بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ریاستی طاقت استعمال ہونے سے انتہا پسند مظلوم بن جائیں گے۔ انھیں عوام سے علیحدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارتی مسلمانوں میں عورتوں کی تعلیم اور انھیں شادی اور جائیداد کے حق کے فوائد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے۔

اس آگاہی کے عمل کو بہتر کرنے کے لیے بھارتی حکومت کو مسلمانوں میں غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ فنڈز فراہم کرنے چاہئیں۔ بھارت کے روشن خیال ماہرین کو ذرایع ابلاغ کے ذریعے خواتین پر عائد پابندیوں کا پردہ چاک کرنا چاہیے، اس کے ساتھ پاکستانی علما اور ماہرین کو عورتوں پر پابندیوں کے انتہا پسندانہ فیصلے کا پردہ چاک کرنا چاہیے۔ مسلمان علما کو اس فیصلے کو غیر اسلامی قرار دینا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا تشخص بہتر ہو۔ اگر سب لوگ اس فیصلے کے نقصانات بیان کریں گے تو بھارتی مسلمانوں کی سوچ کا محور تبدیل ہوسکتا ہے۔ عورتوں کے چلنے پھرنے کے حق کو استعمال کرنے اور پسند کی شادی کے حق پر ہر باشعور شخص کو آواز اٹھانی چاہیے۔

مقبول خبریں