گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی نئی لہر

فہیم اختر  جمعرات 16 اگست 2018
اسکولوں کو جلانے کے واقعات پر صوبائی حکومت کی سرد مہری سے یوں لگتا ہے جیسے حکومت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اسکولوں کو جلانے کے واقعات پر صوبائی حکومت کی سرد مہری سے یوں لگتا ہے جیسے حکومت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ابھی گلگت بلتستان حکومت کی صوبائی کابینہ کا دہشت گردی کے متعلق اجلاس ختم ہوئے اتنا ہی وقت گزرا تھا جتنا کابینہ کے اجلاس میں وقت گزرا تھا کہ دہشت گردوں نے بڑی حکمت عملی سے ضلع دیامر سے ضلع گلگت کی طرف رخ کرلیا۔ یہ واقعات بظاہر دیامر میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں کا تسلسل ہیں۔ ضلع دیامر میں تخریبی کارروائیوں میں ایک پولیس جوان شہید ہوا تھا اور اطلاعات یہی ہیں کہ اس پولیس جوان کے گھر والوں نے دہشت گرد کا پیچھا کرکے اس سے بدلہ لیا اور اسے منطقی انجام تک پہنچادیا۔

داریل تانگیر نالہ جات پر مشتمل علاقہ ہے۔ ضلع دیامر کے ان تاریخی اور خوبصورت مقامات کے، جو بدقسمتی سے دہشت گردوں کے سائے میں ہیں، نالے بیک وقت ضلع گلگت اور ضلع غذر کے کئی نالوں میں جا گرتے ہیں۔ داریل کے علاقہ کھنبری سے گلگت کارگاہ تک تقریباً دو گھنٹے کا راستہ ہے جبکہ دیگر نالہ جات میں گلگت جوٹیال، بتھریت غذر اور غذر کے دیگر نالوں سے جا ملتا ہے۔ آج کے دہشت گرد چند برس قبل تک چوروں کے ٹولے کے طور پر بھی مشہور تھے اور ان نالہ جات میں آکر وہ لوگوں کے مال مویشیوں کو جبراً اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یوں غریب لوگوں کے سال بھر کی محنت مزدوری اور کمائی ان چوروں کے آرام کی نذر ہوجاتی تھی۔ شاید عبدالخالق تاج صاحب نے اسی طرف اشارہ کرکے کہا تھا:

محنت کش اور جفاکش یہاں بدحال رہتے ہیں
جو کچھ نہیں کرتے ہیں وہ مالامال رہتے ہیں

چوری کے ان واقعات کی روک تھام کےلیے حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کیے، جس سے ممکنہ طور پر ان دہشت گردوں کو شہ اور طاقت ملی کہ وہ ان راستوں کو تخریب کاری کےلیے استعمال کریں۔ اس سے قبل غذر کے ایک نالے میں چند برس پہلے ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جہاں دہشت گرد نالوں سے وارد ہوئے تھے اور پولیس چوکی میں موجود جوانوں پر اچانک دھاوا بول کر سب کو رسیوں سے باندھ گئے تھے جبکہ چوکی میں موجود تمام اسلحہ اپنے ’مال غنیمت‘ کے طور پر لے گئے تھے۔

چلاس، داریل اور تانگیر میں پیش آنے والے واقعات کے بعد حکومت نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ ایک اچھے موقعے کو ضائع کردیا جس کے بعد دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی اور پے در پے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے، جن میں ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ملک عنایت اللہ پر قاتلانہ حملہ، پولیس جوان پر حملہ کرکے شہید کرنا، ڈپٹی کمشنر دیامر کے گھر پر حملہ کرنا اور حالیہ کارگاہ کے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ان واقعات کی بناء پر گلگت بلتستان بالخصوص گلگت، غذر اور دیامر کے عوام میں خوف کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔

گزشتہ دنوں کارگاہ کی آخری پولیس چوکی پر دہشت گرد کمانڈر خلیل کی قیادت میں پولیس چوکی پر دھاوا بولنے کا واقعہ سب سے سنگین اور دہشت انگیز تھا۔ دہشت گردوں کی ان کارروائیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی پلاننگ کے ساتھ اقدامات کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کو یہ معلوم تھا کہ گلگت شہر کے اکثر تھانوں سے بڑی تعداد میں نفری چلاس اور ارد گرد تعینات کردی گئی ہے۔ پولیس فورس کو دیامر ضلع میں مصروف رکھ کر دہشت گردوں کا یہ گروہ گلگت کی طرف براستہ نالہ جات روانہ ہوگیا۔ بقول صوبائی حکومت و محکمہ پولیس، انہیں دہشت گردوں کی اس موومنٹ کا علم تھا کہ دہشت گردوں نے داریل سے اوپر نالے کی طرف رخ کرلیا ہے۔ تاہم یہ علم نہیں تھا کہ کس نالے سے وہ نیچے آئیں گے جس کےلیے احتیاطاً تمام نالہ جات بشمول کارگاہ نالہ میں فورس کی تعداد دگنی کردی گئی تھی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملٹری اور پیراملٹری فورس کی خدمات شہر سے زیادہ نالہ جات اور سرحدی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے نالہ جات میں عوام کے مطالبے کے باوجود فوج یا جی بی اسکاؤٹس تعینات نہیں کیے گئے۔ دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کا اصل ہنر فوج اور دیگر پیراملٹری فورسز کے پاس ہوتا ہے۔ پولیس فورس روایتی طور پر کمزور ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسے اقدامات کےلیے مکمل ٹریننگ ہوتی ہے۔

کارگاہ نالہ میں پولیس کے چھ جوان موجود تھے جن میں سے تین شہید ہوگئے اور دو زخمی ہوگئے ہیں جو اس وقت اسپتال میں زیر علاج ہیں اور صرف ایک پولیس اہلکار ’معجزانہ‘ طور پر سلامت رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس نے آخری حربے کے طور پر اندھادھند فائرنگ کردی تھی جس سے اتفاقاً کمانڈر خلیل موقع پر ہلاک ہوگیا تھا۔ کمانڈر خلیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا تعلق انتہائی خطرناک دہشت گردوں میں ہوتا ہے۔ کمانڈر خلیل کا تعلق انتہائی خطرناک اور مطلوب دہشت گردوں میں ہوتا تھا۔ اس سے قبل نانگا پربت میں غیرملکی سیاحوں کے قتل سمیت متعدد کیسز میں پولیس کو مطلوب تھا اور اس کے سر کی قیمت 30 لاکھ مقرر کردی گئی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا اور خطرناک کمانڈر کیا صرف کارگاہ کی پولیس چوکی کو نشانہ بنانے آیا تھا؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ صرف کارگاہ کی پولیس چوکی کو نشانہ بنانے آیا ہوگا بلکہ یقیناً اس کا رخ گلگت شہر ہی تھا جہاں ’فرقہ واریت‘ کی راکھ میں موجود چنگاری کو بڑی آسانی سے ہوا دی جاسکتی تھی۔ پولیس کے تین جوانوں نے جامِ شہادت نوش کرکے اور دو جوانوں نے گولیاں کھا کر گلگت شہر کو آگ لگنے سے بچالیا۔

پولیس کی ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ حکومت پر فرض ہے کہ وہ ان پولیس شہداء کے پسماندگان کی سرپرستی کرے۔ اطلاعات کے مطابق شہید پولیس نواب خان کی دو بیٹیاں جسمانی طور پر معذور بھی ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کا اس ساری صورتحال میں کردار نظر نہیں آیا۔ چیف سیکریٹری جب خبر سن کر راتوں رات اسلام آباد سے گلگت پہنچ کر دیامر میں متاثرہ اسکولوں کا دورہ کرسکتے تھے تو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے ایک ہفتہ تاخیر سے دیامر جانے کی کیا وجوہ ہوسکتی تھیں؟ یقیناً، خوف کے سائے میں جینے والے عوام اپنے نمائندوں کی ہمدردی کے منتظر ہوتے ہیں۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ دیامر تانگیر سے منتخب ہونے والا صوبائی وزیر محمد عمران وکیل اس سانحے کے دوران اپنے ہی گھر میں نظربند ہوکر تمام تر صورتحال سے لاتعلق رہا۔

مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کے تین سال میں دہشت گردی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اسپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کے دو اہلکاروں کو اغوا کیا گیا تھا۔ یہ وہ پہلا واقعہ بھی تھا اور موقع بھی کہ جہاں دہشت گردوں کے خلاف جامع حکمت عملی اپنا کر ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا تھا۔ ایس سی او کے دونوں ملازمین کی بازیابی کے بعد معلوم نہیں وہ اغواء کار کہاں چلے گئے اور حکومت نے ان کے خلاف کیا اقدامات کیے؟

اب اسکولوں کو جلانے کے واقعے کے بعد بھی انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا، یوں معلوم ہورہا ہے جیسے حکومت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے کارگاہ میں تین قیمتی جانیں قربان ہوئیں۔ اگر حکومت کمانڈر خلیل کی ہلاکت کو اپنی حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیتی ہے تو یقیناً یہ دعویٰ غلط اور من گھڑت ہے کیونکہ جس کسمپرسی اور مظلومیت میں جوانوں نے مقابلہ کرکے اپنے آپ کو بچایا ہے، وہ آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہے۔

وقت گزرا نہیں لیکن گزررہا ہے، کارگاہ نالہ کے واقعے نے مستقبل میں مزید ایسے ناخوشگوار واقعات کا خدشہ دوچند کردیا ہے۔ صوبائی حکومت اپنے ’کڑوے فیصلے‘ دہشت گردوں کے خلاف کرے تاکہ ممکنہ نقصان کم سے کم ہو اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔