نعیم الحق

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 17 فروری 2020

’’ ارے کیا کرتے ہو عامر میاں ؟ یار تم مجھے بتایا کرو،کسی سے مت الجھا کرو، دیکھتا ہوں کوئی کیسے ہمارے عامرکو تنگ کرتا ہے‘‘ عجیب بازگشت سازجملے تھے اور اْس پر محیر خیزاندازِ اپنائیت! گذری شام سے اسی فکر میں مستغرق ہوں کہ اب کون کہے گا ؟ اب کون پوچھے گا؟میری خاموش ناراضگی کو سمجھنے والا تو چل بسا، میرے لبوں سے الفاظ کی مالا میں شکوے شکایات سے بھرے جملے تو بعد میں دمکتے تھے وہ ان کی روشنی پہلے ہی سے چْرا لیا کرتا تھا ، بہت جلدی تھی اسے جانے میں، وہ کسی کے بھی بلاوے پر اب واپس پلٹنے کو تیار نہ تھا کیونکہ ’’ الحق‘‘ کا بلاوا ہوتا ہی اتنا خاص ہے کہ تمام چاہنے والوں کی پکارتی آوازیں،قل لا شریک بزرگ و برترکی ’’ کْن ‘‘ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہیں ، سو وہ بھی سجدہ ریز ہوگیا اور نعیم الحق سے ’’نعیم القبر‘‘ یعنی سکون و راحتِ قبر بن گیا۔

اْسے لڑنے کا بے انتہا شوق تھا،کپتان کے دشمن اْسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے، مجھ سے بھی اْس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ میں اْس کے اور اپنے کپتان کا ’’عامر‘‘ نہیں بن گیا اور جس دن بنا اْس دن سے اْس نے مجھے پلکوں پر بٹھائے رکھا مگر تب بھی لڑنا نہیں چھوڑا ، تاہم اب جب بھی لڑتا ہار مان لیا کرتا  تھا ، میں پوچھتا ’’کیوں کوئی جواب ہے؟‘‘ ہنس کر کہتا ’’عامر میاں !جن پر لاڈ آتا ہے اْنہیں ڈانٹنے کو بھی دل نہیں چاہتا حالانکہ تمہاری شرارتوں پرکان کھینچنے کا دل کرتا ہے‘‘ اور پھر یوں ہی مسکرا دیتا ، تعجب تو اس بات پر ہے کہ وہ صاحبِ فراش ہونے کے بعد بھی لڑتا رہا ، اپنی جان لیوا بیماری سے مسلسل الجھتا رہا ، دام میں آکر بھی بچ بچ کے نکلنا کینسرکو شکست دینا نہیں تو اور کیا ہے؟

کون کہتا ہے اسے کینسر نے مارا؟ نہیں ! اْس نے کینسر کا اپنے ہاتھوں سے گلا دبایا، اپنے دوست کا ساتھ دے کر اس نے کئی کینسر اسپتال بنانے کے وہ خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے کہ کینسرکی کیا جرات جو اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جان لے سکتا ! وہ تو ہر نفس کی طرح حکم الہی کے تابع تھا ، اِدھر بلاوے کاآنا تھا کہ اْس نے بہر حال جانا تھا ، جانتا نہیں تھا کہ اس قدرکمی محسوس کروں گا، ہمارا دکھاؤے کا رشتہ ہی نہ تھا، ڈانٹ پڑتی تو بنا تکلف اور پیار ملتا تو ندی کے شورکے طرح جس نے تھمنا سیکھا ہی نہیں، اختلاف ہوتا تو دونوں میں کھل کر اور اتفاق ہوتا تو نعیم بھائی نے پھر اْس موضوع پر بحث کرنا ہی نہیں ہے۔ میں نے آخری ملاقات میں بہت دیرکر دی، جب پہنچا تو ملاقات کا وقت سب ہی کے لیے ختم ہوچکا تھا ، ہم سب نعیم بھائی کے پاس تھے البتہ نعیم بھائی ہمارے پاس نہیں تھے، میں تو برملا کہتا ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ میرا اپنے کپتان کی تیئس سالہ جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ، مجھے تو ابھی صرف دو برس بیتے ہیں مگر نعیم بھائی تب سے تھے جب صرف دو تھے اور تب تک رہے جب تعداد گنتی کی محتاج نہ تھی۔

آج وہ جا چکے، اْن کے ابوابِ گنا و ثواب مکمل ہوئے مگر اتنا ضرور لکھوں گا کہ ’’ جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ قیامت کے دن اْن کے ساتھ کیا ہوگا اور یہ ضرور جانتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیا ہوگا ‘‘ وہ مالک کی ڈھیل کو آزادی اورکسی کی موت کو اپنا جنم دن سمجھ کر خود ساختہ شادیانوں کی آوازوں میں جو تازیانے برسا رہے ہیں وہ کم از کم یہ نہیں جانتے کہ کراماً کاتبین میں سے ایک کاتب ہے جو اْن کے گناہوں کی وہ کتاب مرتب کررہا ہے جو نعیم بھائی کے سامنے ہی پڑھ کر سنائی جائے گی کہ ’’ ہم نے تجھے اپنی بارگاہ میں بلایا اور اس نے ہمارے بلانے پر تیرے لیے یہ کچھ کہا ، اب تْو بتا اسے معاف کردوں یا اس کی تمام نیکیاں تجھے عنایت کردوں اور اگر اس پر بھی تو راضی نہیں تو بول میرے بندے کیا میں تیرے سارے گناہ اس کے گردن میں طوق بنا کر نہ پہنا دوں تاکہ اس سے بڑا مفلس دْنیا وآخرت میں کوئی نہ ہو۔‘‘

(دْنیا میں اس لیے کہ بْرائی کرنے والا جانتا ہی نہ تھا کہ وہ الفاظ ادا نہیں کررہا بلکہ نیکیاں ضایع کررہا ہے) نعیم بھائی کے سانحہ ارتحال پر طنزیہ جملے کسنے اور دل آزار الفاظ تخلیق کرنے والو ! بھول نا جانا کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور بے شک ہر نفس کو پلٹ کر اسی کی جانب لوٹنا ہے کہ جس کا وہ مال ہے ’’رب کے مال میں زباں سے تبّرے کی رال ٹپکا کر خیانت مت کرنا ، ورنہ امانتوں کو سپرد کرنے کی تعلیم عطا فرمانے والا تمہیں وہیں سپرد کرے گا جہاں کے لیے تم تخلیق کیے گئے ہو۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔