پی ٹی آئی احتجاج: عوام کا درد یا انتشار کی سازش؟

سیدہ کنول زہرا زیدی  منگل 24 مئ 2022
شاہراہیں بلاک کرنے سے عوام کو تکلیف ہوگی۔ (فوٹو: فائل)

شاہراہیں بلاک کرنے سے عوام کو تکلیف ہوگی۔ (فوٹو: فائل)

احتجاج کرنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے۔ تاہم احتجاج کی نوعیت کو  دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا یہ اجتجاج عوامی حقوق کی فراہمی کی خاطر ہے یا اقتدار کی رسائی کےلیے عوام کو استعمال کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی بھی احتجاج آج تک عوامی مسائل کے حل کےلیے نہیں کیا گیا بلکہ اقتدار کے ایوان میں براجمان ہونے کےلیے عوام کا وقت اور پیسہ ضائع کرایا گیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کا کبھی یہ موقف ہوتا تھا کہ حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کرنا ان کا بنیادی حق ہے مگر فیصلے سٹرکوں پر نہیں ہوتے، شاہراہیں بلاک کرنے سے عوام کو تکلیف ہوگی۔ یہ عمران خان ہی تھے جو ملک کے اچھے امیج کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں تو صرف وزیراعظم آفس سے گھر اور گھر سے آفس آنے جانے کےلیے باہر نکلتا ہوں تاکہ عوام پریشان نہ ہوں۔ مگر جب سے ان کی حکومت گئی ہے انہوں نے ملک کی سٹرکوں کو مسلسل بلاک کرنے کو اپنا جمہوری حق سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے جمہور یعنی عوام کو شدید دقت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

خان صاحب کو سوچنا چاہیے عوام کے اپنے بھی تو ذاتی کام ہوسکتے ہیں۔ آپ نے اپنے دور اقتدار میں عوام کو ایسا کیا دیا کہ لوگ آپ کی خاطر تکالیف کو برداشت کریں؟ آپ کے ساتھی شیخ رشید انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ہماری کارگردگی کی وجہ سے ہماری سیاست تو ختم ہوگئی تھی، رجیم چینج نے عمران خان کو مقبول کیا۔

عمران خان بطور وزیراعظم نہ غربت کم کرسکے نہ ہی عوام کو روزگار دینے میں کامیاب ہوپائے۔ مہنگائی کم ہونے کی تاریخ بتا کر ہر بار نئی تاریخ دے کر عوام کا صبر آزماتے رہے تو پھر کیوں عوام سے یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے پھر سے اقتدار میں لاؤ؟

یہ عمران خان ہی تھے جو کہتے تھے کہ اگر میں کامیاب نہ ہوسکا تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ تو جناب بتائیے ناکامی اور کسے کہتے ہیں؟ آپ نے چار سال تک عوام کو صرف میٹھی گولی دی، ان کی امیدوں پر پانی پھیرا۔ پھر آپ کا ہی کہنا ہے کہ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ تو جناب پھر کیوں عوام سے اپنی غلامی کروا رہے ہیں؟ کیا عوام آپ کے غلام ہیں کہ آپ ان کےلیے ان ہی سے سڑکیں بند کروا کر اپنے اقتدار کا راستہ صاف کریں؟ کیا اس ملک کے نوجوان آپ کے نوکر ہیں کہ وہ آپ کےلیے موسم کی تمازت برداشت کرکے اپنا وقت برباد کریں,؟ آخر کیوں پاکستان کے عوام آپ کےلیے خوار ہوں؟ صرف اس لیے کہ آپ دوبارہ اقتدار میں آکر اپنی بیگم کی سہیلی کو صوبہ پنجاب تحفے میں دیدیں؟

آپ کہتے ہیں کہ عوام قربانی کےلیے تیار ہوجائیں۔ کیوں? کیا اس ملک کے عوام کا خون اتنا سستا ہے کہ آپ کےلیے بہایا جائے؟ خان صاحب آپ احتجاج کیجیے، بصد شوق کیجیے مگر ملک کی جڑوں کو کمزور مت کیجیے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کا وقار آپ کے اقتدار سے بہت اہم ہے۔ آپ نے اس ملک کے چار سال اپنی ناتجربہ کاری کے تحت برباد کردیے۔ آپ پہلے وزیراعظم بننے کے آداب سیکھیے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ آپ واقعی معتبر ہیں۔ الله نے آپ کو بہت صلاحتیوں سے نوازا ہے، ان میں نکھار لائیے۔

پاکستان طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے۔ عمران خان کے آنے سے عوام کو بہتری کی امید ہوئی تھی مگر وہ امیدوں پر پورا نہ اترے۔ شاید اسی لیے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ان کے حق میں ثابت نہ ہوسکا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے حقیقی آزادی کے نعرے کے ساتھ 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ  25 لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع کریں گے اور جب تک حکومت انتخابات کا اعلان نہیں کردیتی تب تک ان کا قیام اسلام آباد کی سڑکوں پر ہی ہوگا۔

بعض سیاسی حلقے عمران خان کی جانب سے مقررہ کردہ احتجاجی تاریخ پر حیران ہیں کہ آخر کیوں  25  مئی کی ہی تاریخ منتخب کی گئی، جبکہ اس تاریخ کو بھارت کی حکومت مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما یاسین ملک کو سزا سنانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز یاسین ملک کی کمسن بیٹی عمران خان سے گزارش بھی کرچکی ہے کہ عمران انکل اپنے لانگ مارچ کی ڈیٹ آگے کرلیں اور  25  مئی کو میرے بابا کے حق میں آواز بلند کریں۔ 25  مئی کو ہی پاکستان کے معاشی بحالی کےلیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوں گے اور عمران خان ’’مجھے اقتدار میں واپس لاؤ‘‘ کا اسٹیج سجا رہے ہوں گے۔

پاکستان جس کے بہت سے ایشوز ہیں، جیسے کہ ممکنہ معاشی اور  غذائی بحران کا خدشہ، غربت اور بے روزگاری کے مسائل، موسمیاتی تبدیلی کے معاملات، قلت آب، بچوں اور خواتین پر تیزی سے بڑھتے پرتشدد واقعات سمیت دیگر بنیادی اور معاشرتی مسائل جن کا فوری حل ضروری ہے، مگر ہمارے یہاں ان خالصتاً عوامی مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا، بلکہ ’اقتدار میں رہنے دو‘، ’اقتدار میں لے کر آؤ‘ کے مفاد پرست موضوعات پر عوام کی بنیادی ضروریات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔