- ہبل ٹیلی اسکوپ میں خرابی، ناسا نے دوربین کے تمام آپریشنز معطل کردیے
- لفٹ استعمال کرنے کے عادی افراد میں جلد موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تحقیق
- جسٹس بابر ستار کی وضاحت سے کنفیوژن بڑھ گئی: فیصل واوڈا
- کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہری جاں بحق
- خیبر پختونخوا میں چیئرمینز کی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج
- وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے فنڈز کیلئے وزیراعلیٰ سندھ سے مدد طلب کرلی
- پاکستان کو نمایاں مشکلات کا سامنا ہے، ڈائریکٹر آئی ایم ایف
- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم نے پاکستان کو دوسرا ٹی ٹوئنٹی بھی ہرادیا
- کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مزار کی تزئین و آرائش اور مرمت مکمل
- پاکستان ڈیجیٹل کرنسی کی جانب جانے کا سوچ رہا ہے، وفاقی وزیر خزانہ
- مردان میں انسداد تجاوزات آپریشن میں قبضہ مافیا کی فائرنگ سے ریلوے پولیس کے دو اہلکار شہید
- وزیراعظم کی آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات، نئے قرض پروگرام پر تبادلہ خیال
- آپ کا مشن ہمارا مشن، پاکستان کی ترقی ہماری ترقی ہے، سعودی وزرا کی وزیراعظم کو یقین دہانی
- روس؛ فوربز سے منسلک صحافی فوج سے متعلق فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں نظربند
- کراچی میں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ
- آئی پی ایل: ٹم ڈیوڈ کا چھکا پکڑنے کی کوشش میں تماشائی زخمی ہوگیا
- آئی ایم ایف کے پاس جانا اپنی ناکامی کا اعتراف ہے، شاہد خاقان عباسی
- اذلان شاہ ہاکی کپ کیلئے 18 رکنی قومی اسکواڈ کا اعلان
- لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں ویپنگ زیادہ کرتی ہیں، تحقیق
- انگریزی بولنے کی مشق کے لیے گوگل کا اہم اقدام
جامعہ کراچی کے کھاتے کی بجلی گھروں پر استعمال ہونے کا انکشاف
کراچی: جامعہ کراچی شدید مالی بحران کے باوجود یونیورسٹی کے کھاتے سے گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کے کروڑوں روپے کے بل ادا کررہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جامعہ کراچی کے کیمپس میں مقیم ملازمین مجموعی طور پر بجلی کے بلوں کی مد میں 20 لاکھ روپے ماہانہ ادائیگی کے عوض تقریبا 4 کروڑ روپے کی بجلی خرچ کررہے ہیں تاہم بل کی اصل رقم کی کروڑوں روپے کی ادائیگی یونیورسٹی خزانے سے کی جاتی ہے۔
جامعہ کراچی کے حالیہ مالی بحران میں یونیورسٹی انتظامیہ اس وقت تقریبا 10 کروڑ روپے کی “کے الیکٹرک” کی نادہندہ ہے اور ستمبر 2022 کے 6 کروڑ روپے جب کہ نومبر کے تقریبا 4 کروڑ روپے کی ادائیگیاں ابھی باقی ہیں تاہم جامعہ کراچی میں فنانشل منیجمنٹ کے فقدان کے سبب اب تک اساتذہ و ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکی ہیں اور نہ ہی قائم مقام ڈائریکٹر فنانس بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کوئی راہ حل تلاش کرسکے ہیں جس سے جامعہ کراچی بدترین مالی بحران کی جانب جاچکی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ جب سے ڈائریکٹر فنانس کی مدت ملازمت ختم ہوئی ہے اور وہ تاحکم ثانی کے نکالے گئے نوٹیفیکیشن کے تحت کام کررہے ہیں اس وقت سے ان کی منصبی معاملات میں دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے وہ مختلف فائلوں پر اعتراض لگا کر اسے سندھ حکومت کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے رائے طلب کرنے کی تجویز دے دیتے ہیں۔
ادھر جامعہ کراچی کے ایک مالیاتی افسر نے “ایکسپریس” کو بتایا کہ بجلی کے بل کی مد میں جامعہ کراچی کے اکیڈمک ایریا اور انتظامی دفاتر کا حصہ 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا باقی تمام رقم کیمپس میں رہائش پذیر ملازمین کے گھروں میں خرچ ہونے والی بجلی کی مد میں واجب الادا ہے تاہم ملازمین کے دباؤ پر اب تک کوئی بھی انتظامیہ کیمپس کے گھروں میں بجلی کے میٹرز کی تنصیب نہیں کر پائی ہے۔
جامعہ کراچی کی انتظامیہ کیٹگری کی بنیاد پر کیمپس کے گھروں سے 2 ہزار سے 6 ہزار روپے یا اس سے کچھ زائد رقم فی گھر وصول کرتی ہے جب کہ گھروں میں ہزاروں روپے کی بجلی خرچ کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت جامعہ کراچی کی انتظامیہ محض تنخواہوں و پینشن کی مد میں 40 کروڑ روپے ماہانہ ادا کررہی ہے جس میں 30 کروڑ روپے تنخواہوں اور 10 کروڑ روپے پینشن کے ہیں یہ تنخواہیں جاری نہ ہونے کے سبب انجمن اساتذہ کی کال پر اساتذہ تدریسی بائیکاٹ پر ہیں اور اس کا ذمے دار سندھ حکومت کی جانب سے گرانٹ کے اجراء میں تاخیر کو سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں سندھ حکومت کے سیکریٹری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا کہنا تھا کہ “تنخواہوں و پینشن کی ادائیگی کسی بھی وقت سندھ حکومت کی ذمے داری نہیں رہی، یہ ذمے داری دراصل وفاقی ایچ ای سی کی ہے تاہم اساتذہ اس سلسلے میں حکومت سندھ کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تو جامعات کی گرانٹ 15 بلین تک بڑھادی ہے، اس رقم کا تنخواہوں سے تعلق ہی نہیں ہے جب کہ وفاق نے گرانٹ نہیں بڑھائی پھر بھی احتجاج ہمارے خلاف ہوتا ہے۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے یونیورسٹی کے فنانس کے ذمے داروں کے حوالے سے سوال کیا کہ آخر تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم علیحدہ کیوں نہیں کی گئی۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ یونیورسٹی میں بجلی کے میٹرک لگ چکے ہیں جامعہ کراچی میں کیوں نہیں لگتے ایک نائب قاصد اپنے گھر میں چار اے سی چلاتا ہے اور بل ایک اے سی کے مساوی بھی ادا نہیں کرتا “علاوہ ازیں جب شیخ الجامعہ سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ حکومت کی گرانٹ اضافی اخراجات کے لیے ہے تنخواہوں کی ذمےداری اس کی نہیں ہے تاہم اب تنخواہوں اور بجلی کے بلوں کی مد میں دائیگیاں دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔
ایک سوال پر شیخ الجامعہ کا کہنا تھا کہ ہم کوویڈ میں تجربہ کرچکے ہیں جب جامعہ کراچی کی اکیڈمکس بند تھی پھر بھی بجلی کے بلوں کی مد میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے بجلی کے بل کا بڑا حصہ کیمپس کی جانب سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سینڈیکیٹ میں یہ تجویز لے کر جارہے ہیں کہ یا تو گھروں میں سب میٹر لگائے جائیں یا ان کے ریٹ ریوائز کیے جائیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔