پاناما فیصلہ، نظرثانی اپیلیں خارج، نواز شریف کی نااہلی برقرار

ویب ڈیسک  جمعـء 15 ستمبر 2017

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما کیس فیصلے پر نظر ثانی سے متعلق تمام اپیلیں مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے 28 جولائی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

سپریم کورٹ میں پاناما کیس فیصلے کیخلاف شریف خاندان کی نظر ثانی درخواستوں پر سماعت مسلسل تیسرے روز ہوئی جس میں شریف خاندان کی جانب سے پاناما نظر ثانی اپیلوں پر فریقین نے دلائل مکمل کیے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ان کی درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی نقاط سابق وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سے مطابقت رکھتے ہیں تاہم سب سے پہلے کیپٹن (ر) صفدر کیخلاف نیب ریفرنس پر دلائل دونگا۔

سلمان اکرم راجا نے کہاکہ سابق وزیر اعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدرکا ایون فیلڈ پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا اس کے باوجود عدالت نے کیپٹن صفدر کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی کیپٹن صفدر کیخلاف کچھ نہیں، کیپٹن نے بطورگواہ ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کیے جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ جے آئی رپورٹ کے مطابق کیپٹن صفدرکا کچھ تعلق بنتا ہے کیونکہ کیپٹن صفدر کی اہلیہ نے پہلے جائیداد سے انکار کیا پھرٹرسٹ ڈیڈ تسلیم کی، اسی طرح کیپٹن صفدر نے بھی پہلے انکار کیا پھرٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط مانے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کیس کا کیا فیصلہ ہو گا لیکن ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا۔

اس خبرکو بھی پڑھیں:نوازشریف کو تمام ججز نے نااہل کیا تاہم وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، سپریم کورٹ

جسٹس شیخ عظمت سعید نے اس موقع پر واضح کر دیا کہ ٹرائل کورٹ پر سپریم کورٹ کی کوئی آبزرویشن اثرانداز نہیں ہونے دینگے جبکہ واضح کر چکے ہیں کہ شفاف ٹرائل اور بنیادی حقوق پر بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، اس طرح ضمانت کے مقدمات میں لکھتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کرے۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران الزام تھا عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات جعلی ہیں لیکن عدالت نے اس حوالے سے کوئی ریمارکس نہیں دیے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ براہ راست ریفرنس سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں ہر دستاویز پر کھل کر رائے دی ہے حتیٰ کہ دفاع میں جو گواہ پیش کرنے تھے ان پر بھی رائے دی گئی، اس ضمن میں صرف جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز افضل خان نے رائے نہیں دی جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برجستہ کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم دونوں بھی کھل کر رائے دیں۔

دوران سماعت جسٹس آصف کھوسہ نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کیس میں بھی عدالت نے رائے دی لیکن ٹرائل پر اثر انداز نہیں ہوئی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یقین دلاتے ہیں کہ فیئر ٹرائل اور بنیادی حقوق پر سمجھوتہ نہیں ہو گا، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ جعلی دستاویزات کے معاملے پر عدالت نے کوئی رائے نہیں دی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس ضمن میں ہم تو نظر ثانی کی دوسرے فریق سے امید کر رہے تھے، آپ ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟ ہم نے بنیادی حقوق اور آئین کے تحفظ کا حلف لے رکھا ہے، کیا آپ کو بیان حلفی دیں تو آپ یقین کریں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ شواہد کی بنیاد پر ٹرائل کریگی اور آپ جے آئی ٹی پر جیسے چاہیں جرح کریں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم نے فیصلہ لکھنے میں کافی احتیاط سے کام لیا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ اپنا نتیجہ اخذ کرنے میں آزاد ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ گواہان پر جرح کرنے میں بھی آزاد ہیں، آپ سے ہم محتاط ہیں جو آپ مانگ رہے ہیں ہم اس سے بھی ایک قدم اگے کھڑے ہیں، اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اپیل دائر نہیں ہو رہی ہے۔ شیخ رشید نے ججز سے مکالمہ میں کہا کہ آپ کی اولاد بھی ملک میں سر اٹھا کر چلے گی اور اگر ادارے ٹھیک ہو جائیں تو جمہوریت کو خطرہ نہیں لیکن نیب، پیمرا، الیکشن کمیشن کے سربراہ خواہش پر لگائے جاتے ہیں، شیخ رشیدنے الزام لگایا کہ عدالت کے فیصلے کیخلاف پولیس کو سادہ کپڑوں میں سڑکوں پر لایا گیا حالانکہ حدیبیہ ملز سے فلیٹس سمیت تمام مقدمات نکلے ہیں، حدیبیہ کیس ہی مدر آف کرائمز ہے۔

اس خبر کوبھی پڑھیں: نواز شریف اور اسحاق ڈار عدلیہ مخالف مہم چلا رہے ہیں، سپریم کورٹ

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر بھی حکومت اپنی مرضی کا لگاتی ہے، الیکشن میں ہاری ہوئی پارٹی نہیں چاہتی کہ ان کے کیس کھلیں، کل خبر چلائی گئی کہ اپیل فائل کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ پیسوں کا ہیر پھیر نہ آنے پر مجھے وزارت سے ہٹایا گیا، نیب اور ایف آئی اے میں درباریوں کو لگایا جاتا ہے، یہ ادارے ٹھیک ہو جائیں تو آدھا ملک ٹھیک ہو جائے، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ شیخ صاحب بلاوجہ کے الزام نہ لگائیں، اس دوران پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ چیئرمین نیب نے اپیل دائر کرنے کا حکم دیدیا ہے، 7 روز میں اپیل دائر کر دیں گے کیونکہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ پرسوں کیا اور کل اس کا مسودہ میرے پاس آیا لیکن شیخ رشید احمد نے اپنی درخواست میں مجھے بھی نہیں بخشا۔ نیب کی یقین دہانی پر عدالت نے شیخ رشید کی درخواست نمٹا دی۔

بعد ازاں تمام درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی پاناما نظرثانی اپیلیں مسترد کر دیں، سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث، حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کی جانب سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ اور اسحق ڈار کی جانب سے شاہد حامد ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو دلائل دیے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کو درخواستوں کی تیسری سماعت کے دوران دلائل مکمل ہونے پر پہلے فیصلہ محفوظ کیا اور ججوں کی مشاورت کے بعد اس کا اعلان کر دیا۔

فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نظرثانی درخواستیں مسترد کرنے کی وجوہ بعد میں بتائی جائیں گی، کارروائی کے دوران وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کا لندن فلیٹس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے مطابق مریم نواز ان فلیٹس کی بینیفیشل مالک ہیں، اگر تفتیش میں سقم موجود ہیں تو معاملہ ٹرائل کورٹ میں اْٹھایا جائے جس کا ملزمان کو فائدہ ہو گا۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز نے پہلے لندن فلیٹس سے تعلق کا انکار کیا تھا، معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں، اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ نے مریم نواز کو مالک قرار دیا، یہ کہنا مناسب نہیں کہ کیپٹن صفدر کا فلیٹس سے تعلق نہیں۔ سلمان اکرم راجانے کہا کہ انکوائری ہونی چاہیے تھی ریفرنس کا کیوں کہہ دیا، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق بیان دیا ہے، کیپٹن صفدر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے، کیپٹن صفدر مریم نواز کے شوہر ہیں، اے پی پی کے مطابق فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔