- لاہور: ٹکسالی گیٹ کے علاقے میں موٹرسائیکل سوار کی فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید
- رواں مالی سال کے 9 ماہ میں مالیاتی خسارہ 4337 ارب سے تجاوز کرگیا
- ترکیے کا عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس میں فریق بننے کا اعلان
- سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش، اسکول بند
- قومی اسمبلی میں آزاد اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم، فہرست جاری
- کلرکہار؛ موٹروے پولیس اور خواتین کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیو وائرل
- اپیکس کمیٹی سندھ کا ہنگامی اجلاس طلب
- کراچی میں پارہ 39.4 ڈگری تک پہنچ گیا، کل 40 ڈگری تجاوز کرنے کا امکان
- پنجاب میں مزید 31 اعلیٰ افسران کے تقرر و تبادلوں کے احکامات
- متحدہ اور پی پی میں ڈیڈ لاک ختم، ملکر قوم کی خدمت کرنے پر اتفاق
- علی ظفر سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نامزد
- چیمپئنز ٹرافی: بھارت کے میچز ایک ہی شہر میں کرانے کی تجویز
- اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ؛ ملائیشیا میں فاسٹ فوڈ برانڈ کے ریسٹورینٹس بند ہوگئے
- حکومت اسٹیل مل بحال نہیں کرسکتی تو سندھ حکومت کے حوالے کردے، بلاول
- صدر مملکت کا کراچی اور کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم
- پالتو بلی کی ایک چھوٹی سی غلطی نے گھر کو آگ لگادی
- 200 سے زائد پُرانی کتب پر زہریلی دھاتوں کے نقوش دریافت
- وٹامن ڈی اور قوتِ مدافعت کے درمیان ممکنہ تعلق کا انکشاف
- ہم نے قائداعظم کا اسرائیل مخالف نظریہ سمجھا ہی نہیں، مولانا فضل الرحمان
- کے ٹو ایئرویز کو کارگو لائسنس جاری
سائنس دانوں نے اسٹیم سیل کو آنکھ کے ٹشو میں بدل دیا
میری لینڈ: امریکا میں سائنس دانوں نے مریض کے اسٹیم خلیے (خلیاتِ ساق) اور تھری ڈی بائیو پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آنکھ کا ایک بافت (ٹشو) بنایا جو بینائی ختم ہونے کے امراض کے متعلق جدید فہم فراہم کرے گا۔
نیشنل آئی اِنسٹی ٹیوٹ(این ای آئی) سے تعلق رکھنے والی محققین کی ٹیم نے خلیوں کا ایک مرکب پرنٹ کیا جو پردہ بصارت کی بیرونی پرت (آؤٹر بلڈ ریٹینا بیریئر) بناتا ہے۔ یہ آنکھ کا وہ بافت ہوتا ہے جو پردہ بصارت کے روشنی کا احساس کرنے والے فوٹو ریسیپٹرز کو سہارا دیتا ہے۔
یہ تکنیک ایج ریلیٹڈ میکیولر ڈی جنریشن (اے ایم ڈی) جیسی پردہ بصارت کی بیماریوں کے مطالعے کے لیے نظریاتی طور پر مریض سے بنائے گئے بافت لامحدود مقدار میں فراہم کر سکتی ہے۔
این ای آئی کے اوکیولر اور اسٹیم سیل ٹرانسلیشنل ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر کپل بھارتی کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں اے ایم ڈی پردہ بصارت کی باہری پرت سے شروع ہوتا ہے تاہم، اے ایم ڈی کے شروع ہونے اور انتہائی خشک اور تر نہج تک پہنچ جانے کے میکینزم کی سمجھ انتہائی کم ہے جس کی وجہ عضویاتی اعتبار سے مناسب انسانی نمونوں کا نہ ہونا ہے۔
آؤٹر بلڈ ریٹینا بیریئر(او بی آر بی) ریٹِینل پِگمنٹ ایپیتھیلیم(آر پی ای) پر مشتمل ہوتی ہے جس کو بروچز جھلی خون کی رگوں سے بھرپور کوریو کیپیلاریز سے علیحدہ کرتی ہے، پروچز جھلی کوریو کیپیلاریز اور آر پی ای کے درمیان اجزاء کے تبادلے اور کچرے کو قابو کرتی ہے۔
اے ایم ڈی میں بروچز جھلی کے باہر لِپو پروٹین کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے فعلیت میں مشکل پیش آتی ہے۔ وقت کے ساتھ آر پی ای کا خراب ہونا فوٹو ریسیپٹر کو خراب کرتا ہے اور بصارت کے کھو جانے کا سبب بنتا ہے۔
اس تحقیق میں کپل بھارتی اور ان کے ساتھیوں نے تین ناپختہ کوروڈیل خلیوں کی اقسام کو ملا کر ایک ہائیڈروجیل بنایا۔ ان خلیوں میں پیریسائٹس، اینڈوتھیلیئل (جو شریانوں کے لیے اہم ہوتے ہیں) اور فائبروبلاسٹ (جو بافت کو ساخت دیتے ہیں) شامل تھے۔
سائنس دانوں نے اس جیل کو ایک بائیو ڈی گریڈایبل (ایسے مواد سے بنا جسے بیکیٹریا ختم کردیں اور آلودگی کا سبب نہ بنیں) فریم پر ڈھالا۔ چند ہی دنوں میں خلیے پختہ ہو کر ایک گنجان شریانوں کے جال میں بدل گئے۔
خلیوں سے گنجان جال تک پہنچنے کا یہ عمل 42 دنوں پر مشتمل تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔